نئی دہلی:(ایجنسی) جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلرنجمہ اختر کی تقرری کو چیلنج کرنے والی درخواست پر نوٹس جاری کیا گیا۔ جسٹس راجیو شکدھراورجسٹس تلونت سنگھ پر مشتمل ڈویژن بنچ 5 مارچ 2021 کے سنگل جج بنچ کے حکم کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہا تھا جس نے ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک رٹ پٹیشن خارج کر دی تھی۔ عدالت نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ لیا کہ عدالت انکوائری کمیٹی کے فیصلے پر اپیل میں نہیں بیٹھ سکتی۔
اس معاملے میں عدالت نے مرکز،نجمہ اختر، مرکزی ویجیلنس کمیشن، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جواب طلب کیا ہے۔ مقدمے کی اگلی سماعت 22 ستمبر کو طے کی گئی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فیکلٹی آف لا کے سابق طالب علم ایم احتشام الحق کی جانب سے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ سنگل جج تقرری پر جواز پیش کرنے میں ناکام ہے۔
اپیل کنندہ کی جانب سے پیش ہوکر ایڈووکیٹ مبشر نے انکوائری کم سلیکشن کمیٹی تشکیل کا مسئلہ اٹھایا۔ ان کے مطابق کمیٹی کو اعلیٰ شعبہ تعلیم کے نامور افراد کو شامل کرنا تھا۔ جبکہ ریٹائرڈجسٹس ایم ایس اے صدیقی 2018 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے وضع کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق اس کے اہل نہیں ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے. چونکہ سنگل جج جسٹس (ریٹائرڈ) ایم ایس اے صدیقی وجہ بتانے میں ناکام رہے کہ ایک تعلیمی سوال جس کا فیصلہ ماہرین اور ماہرین تعلیم کو کرنا چاہیے ۔ ماہرین تعلیم ہی اس کے اہل ہیں۔ ایک جسٹس کے مقابلے ایک ماہرتعلیم ہی تعلیمی معاملات کو بہتر طور پر حل کرسکتا ہے” انھوں نے یہ بھی دلیل دی کہ وزارت برائے انسانی وسائل نےغیر تعلیمی افراد کو سلیکشن کمیٹی میں شامل کرنے کی سفارش میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
دوسری طرف ،مرکز اور جامعہ کی جانب سے پیش ہونے والے اے ایس جی وکرمجیت بنرجی نے یہ کہا کہ جسٹس صدیقی قومی اقلیتی تعلیمی ادارے کے صدر ہونے اور اپنے سابقہ تجربے کی وجہ سے سلیکشن کمیٹی کا حصہ بننے کے لیے موزوں ہیں۔ اس کے علاوہ یوجی سی یا جامعہ کی واضح شق کی خلاف کام کرتے ہوئے پروفیسر نجمہ اختر کی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ اب معاملہ کورٹ میں ہے اور کورٹ نے متعدد اداروں سے جواب طلب کیا ہے۔ اس لیے اس معاملےکی اگلی سماعت 22 ستمبر کو ہوگی۔