پرانی گاڑیوں پر پابندی پر دہلی حکومت کا یوٹرن؛ عوامی غصہ، متوسط طبقے کی بے بسی اور آٹوموبائل انڈسٹری کی چاندی: عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

دہلی حکومت نے حالیہ دنوں ایک ایسا فیصلہ کیا، جس نے پوری ریاست کے لاکھوں گاڑی مالکان کو اچانک تشویش میں مبتلا کر دیا۔ پالیسی کے تحت دہلی میں دس سال پرانی ڈیزل اور پندرہ سال پرانی پٹرول یا سی این جی گاڑیوں کو پٹرول پمپوں پر ایندھن فراہم کرنے سے روک دیا جانا تھا۔ فیصلہ نہایت سخت تھا اور اسے اچانک اور بغیر تیاری کے نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن صرف چند ہی روز میں عوامی غصے، مخالفت اور عملی مسائل کے پیش نظر حکومت نے اپنا مؤقف بدل لیا اور کہا کہ ’’فی الحال اس فیصلے کا اطلاق مناسب نہیں۔‘‘

یہ فیصلہ اور پھر اس پر یوٹرن درحقیقت دہلی میں فضائی آلودگی کو قابو میں لانے کی ایک بڑی کوشش کا حصہ تھا۔ مگر ماہرین، عوام اور سماجی مبصرین نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسی پالیسی، جو لاکھوں لوگوں کو براہ راست متاثر کرتی ہو، اس طرح جلد بازی میں اچانک نافذ کی جا سکتی ہے؟ دہلی حکومت کے مطابق، دہلی کی سڑکوں پر تقریباً 20 لاکھ ایسی گاڑیاں ہیں، جو اس پالیسی کی زد میں آسکتی تھیں۔ ان میں دو پہیہ گاڑیوں کی تعداد بھی بڑی ہے اور باقی کاریں، ٹیکسیز، آٹو رکشہ اور دیگر کمرشیل گاڑیاں شامل ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس فیصلے کے نتیجے میں تقریباً 6 سے 7 لاکھ گاڑیوں کو فوراً ایندھن کی سہولت سے محروم ہونا پڑتا۔ ایک طرف حکومت کی نیت شاید صاف تھی کہ دہلی کی بدترین فضائی آلودگی پر قابو پایا جائے، لیکن دوسری طرف اس کے اثرات سب سے زیادہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس پر پڑتے۔ یہی وہ طبقہ ہے جو پرانی گاڑیاں سالہا سال استعمال کرتا ہے، کیونکہ اس کے لیے بار بار نئی گاڑی خریدنا ممکن نہیں ہوتا۔

اس فیصلے کا سب سے بڑا مالی بوجھ انہی متوسط طبقات کی جیب پر آتا۔ اگر کوئی شخص اپنی گاڑی کو محض اس لیے بدلنے پر مجبور ہو کہ وہ عمر کی ایک حد پار کرچکی ہے، چاہے اس کا انجن، کنڈیشن اور پرفارمنس عمدہ ہو، تو یہ واضح طور پر ایک معاشی ناانصافی ہے۔ گاڑیوں کی ری سیل ویلیو ایک دم گر جاتی، کیونکہ لاکھوں گاڑیاں اچانک بیکار قرار پاتیں۔ ان کے مالکان یا تو انہیں اسکریپ میں بیچنے پر مجبور ہوتے یا صفر قیمت پر پارکنگ اسٹینڈس میں کھڑا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔
ایک شہری نے بتایا: ’’میری پندرہ سال پرانی پٹرول کار اب بھی بہترین حالت میں ہے، ہر سالPollution Certificate بھی پاس ہوتا ہے۔ مگر صرف عمر کی بنیاد پر اس پر پابندی لگا دینا نہ انصاف پر مبنی ہے نہ منطقی۔ ‘‘

ایک اور صاحب جن کا روزگار ٹیکسی چلانے سے جڑا ہے، کہتے ہیں: ’’میں نے 2012 میں گاڑی لی تھی، ابھی مشکل سے پچاس ہزار کلومیٹر چلی ہے۔ اگر پابندی لگ جاتی تو میری روٹی بند ہو جاتی۔‘‘
یہی وہ کہانیاں ہیں جو دہلی کی گلی گلی میں گونج رہی تھیں۔ نہ صرف ذاتی بلکہ کمرشیل شعبے کے ہزاروں افراد اس سے متاثر ہوتے۔ چھوٹے کاروباری، ڈیلیوری بوائز، ٹیکسی ڈرائیور، اسکول بسیں، سبھی اس کی زد میں آتے۔
دوسری طرف اس فیصلے سے آٹوموبائل انڈسٹری کو بے پناہ فائدہ ہوتا۔ نئی گاڑیوں کی طلب میں زبردست اضافہ ہوتا، جس سے مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے منافع آسمان کو چھو سکتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق، صرف کار ساز کمپنیاں 4.5لاکھ کروڑ روپے کا نیا کاروبار سمیٹ سکتی تھیں۔ یعنی جب عام آدمی پر پابندی لگتی، تو کمپنیوں کے لیے مواقع پیدا ہوتے۔ اسے بعض مبصرین نے ’’پالیسی کے نام پر انڈسٹری کا فائدہ‘‘ قرار دیا۔

آٹو موبائل ماہر آنند کرشنن کہتے ہیں: ’’پالیسی کا فوکس اگر صرف گاڑی کی عمر ہے، تو یہ تکنیکی لحاظ سے ناقص ہے۔ انجن کی کارکردگی اور ایمیشن ٹیسٹ کو بنیاد بنایا جانا چاہیے، نہ کہ اس کی مدت۔ ‘‘
ایک اور ماہر رِتو راج کا کہنا ہے: ’’بہت سی پرانی گاڑیاں اچھی دیکھ بھال کے ساتھ کم آلودگی پھیلانے والی ثابت ہوسکتی ہیں۔ صرف کاغذی عمر کی بنیاد پر پابندی نافذ کرنا غیر سائنسی اور غیر منطقی ہے۔ ‘‘

عوامی ردعمل کے علاوہ، عدالتی سطح پر بھی کچھ پٹیشنز دائر ہوئیں، جن میں مطالبہ کیا گیا کہ اس پالیسی کو تکنیکی بنیادوں پر جانچا جائے۔ شہریوں نے سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل دیا۔ ایک صارف نے لکھا: ’’یہ فیصلہ مڈل کلاس کے خلاف ہے۔ اگر ماحول بچانا ہے تو بڑی انڈسٹریز، کنسٹرکشن سائٹس اور دیگر آلودگی پھیلانے والے عوامل پر بھی سختی ہونی چاہیے۔‘‘
عالمی تجربات بھی اس سلسلے میں دلچسپ ہیں۔ جرمنی، سویڈن اور جاپان جیسے ممالک میں گاڑیوں پر مکمل پابندی نہیں لگائی جاتی بلکہ Low Emission Zones قائم کیے جاتے ہیں، جہاں پرانی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی ہوتی ہے، لیکن شہر کے باقی حصوں میں وہ گاڑیاں چل سکتی ہیں۔ وہاں حکومتیں عوام کو سبسڈی دیتی ہیں، تب جا کر پرانی گاڑیوں سے نجات حاصل کی جاتی ہے۔

دہلی حکومت نے شاید اسی تنقید، عوامی دباؤ اور زمینی حقائق کے پیش نظر اپنا فیصلہ واپس لیا۔ کہا گیا کہ ’’فی الحال فیصلہ نافذ کرنا مناسب نہیں۔‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں اس فیصلے کو بہتر منصوبہ بندی اور مشاورت کے ساتھ نافذ کیا جائے گا؟ کیا عوام کو متبادل دیے جائیں گے؟ کیا سبسڈی، اسکریپ پالیسی یا نئے ماڈل خریدنے کے لیے آسان قرض کی سہولت فراہم کی جائے گی؟ یا پھر صرف نئے وہیکل بیچنے والی کمپنیوں کا منافع ہی حکومتوں کی ترجیح ہوگا؟ دہلی جیسے شہر میں آلودگی واقعی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، لیکن اس کا حل عوام کو سزا دینا نہیں بلکہ اجتماعی طور پر مسائل کا متبادل، سستا، پائیدار اور منصفانہ حل دینا ہے۔ پالیسی کا مقصد اگر عوام کی زندگی بہتر بنانا ہو تو اسے عوامی مشورے، تدبر اور سائنسی اصولوں کی بنیاد پر ترتیب دیا جانا چاہیے۔

یہ فیصلہ اور اس پر لیا گیا یوٹرن صرف دہلی کی ٹریفک یا آلودگی کا مسئلہ نہیں، بلکہ پالیسی سازی کے عمل، متوسط طبقے کی بے بسی اور کارپوریٹ مفادات کے مابین کشمکش کی کہانی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آئندہ عوامی مفاد، ماحولیاتی تحفظ اور معاشی انصاف کے درمیان ایک متوازن راستہ اختیار کرے، جہاں نہ عام آدمی پِسے، نہ ماحول بگڑے اور نہ صرف کمپنیوں کے فائدے کو پالیسی کا مرکز بنایا جائے۔

(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS