دہلی الیکشن: کجریوال کی حد سے زیادہ خود اعتمادی: پروفیسر اسلم جمشید پوری

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

دہلی ملک کی راجدھانی ہے۔ زمانے تک یہاں کانگریس اور بی جے پی کی حکومت رہی ہے۔دہلی کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ کئی معاملات میں دہلی کا کوئی جواب نہیں۔دہلی اسمبلی کا قیام تو 17مارچ1952 کو1951 کے ایکٹ کے مطابق ہوا تھا۔اولڈ سیکریٹریٹ ہوا کرتا تھا۔اس زمانے میںکانگریس کے چودھری برہم 1952 اور گرمکھ نہال سنگھ1955 میں وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ پھر یہ National Territory کے تحت آیااور 1993 میں اسے ریاست کاآدھا ادھورا درجہ ملا۔مگر پورے طور پر اسے ابھی تک ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہوپایا۔یہاں لیفٹیننٹ گورنر ہوتے ہیں۔ایم سی ڈی،این ڈی ایم سی،دہلی پولیس وغیرہ مرکزی سرکار کے تحت ہی ہیں بلکہD MC اورتوNDMC دہلی سرکار کی ہوگئی ہیں لیکن دہلی پولیس اور کئی اہم معاملے اب بھی مر کزی سر کار کے ہاتھ میں ہیں۔

دہلی اسمبلی کی مدت25 فروری2025 تک پوری ہورہی ہے۔کسی بھی حال میں 25 فروری تک نئی اسمبلی کے اراکین کوحلف لینا ہے یعنی فروری کے تیسرے ہفتے تک دہلی میں انتخاب ہونے ہیں۔اب یہ مرکزی حکومت پر ہے کہ وہ دہلی میں انتخاب کب کراتی ہے؟وہ اپنی تیاری کا جائزہ لے گی اور جب اس کو لگے گا وہ ای سی آئی کو ہری جھنڈی دکھادے گی۔اب الیکشن جنوری یا حد سے حد فروری میں ہو سکتے ہیں۔اس بار دہلی میں یوں تو بہت سی پارٹیاں اپنی قسمت آزمائیں گی لیکن اصل مقابلہ عام آدمی پارٹی (آپ)،بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہوگا۔یہ مقابلہ بھی آمنے سامنے کا ہو سکتا تھا،مگر آپ نے انڈیا بلاک سے (دہلی الیکشن میں) سمجھوتہ نہ کرنے اور اکیلے اپنے دم پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔اس لیے اب دہلی میں مقابلہ سہ رخی ہوگا۔کانگریس کو کمزور سمجھنے کی جو غلطی آپ نے اور کجریوال نے کی ہے، وہ کوئی اور نہ کرے۔کانگریس اب راہل گاندھی،پرینکا گاندھی اور ملکارجن کھر گے کی قیادت میں کافی تبدیل ہو چکی ہے۔اکیلے الیکشن لڑنے کا آپ کا فیصلہ یعنی اروند کجریوال کا قدم،ایک طرف حد سے زیادہ اعتماد کا مظاہر ہ کر تا ہے تو دوسری طرف نیچے آنے کا اشارہ بھی ہے۔ہو سکتا ہے دہلی میں نئی حکومت عام آدمی پارٹی کی بن جائے، مگر یہ بھی ہو سکتا ہے الیکشن کے بعد ان کو کانگریس کی مدد کی ضرورت پڑے۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دہلی میں ایک بار بی جے پی پھر واپس آجائے؟ اگر یہ ہوا تو یہ آپ کے لیے خود کشی کے مترادف ہو گا۔ایک تو بی جے پی کسی بھی حال میں دہلی فتح کرنا چاہے گی،اس کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔ کانگریس اور آپ مل کر بی جے پی کا آسانی سے مقابلہ کر سکتے ہیں،اکیلے نہیں۔

دہلی پر پہلے بی جے پی کی حکومت رہی ہے۔ مدن لال کھرانہ، صاحب سنگھ ورمااور سشما سوراج اس کی چیف منسٹر رہی ہیں۔اس کے بعد کانگریس کا زمانہ آیا۔شیلا دیکشت تین بار دہلی کی وزیر اعلیٰ رہیں۔پھر آپ کا دور آیا اور اروند کجریوال تین بار دہلی کے وزیراعلیٰ رہے۔ابھی فی الحال آتشی صاحبہ دہلی کی وزیراعلیٰ ہیں۔دہلی کے گزشتہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی۔آج بھی عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال کی مقبولیت برقرار ہے،لیکن الیکشن تو الیکشن ہے۔یہ وہ ترازو ہے جس کا پلڑا کبھی بھی،کسی کی طرف جھک سکتاہے۔کسی کی بھی ہار جیت ہوسکتی ہے۔عام آدمی پارٹی کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔زمینی حقیقت کو قبول کر نا چاہیے۔عام آدمی پارٹی کو چاہیے کہ وہ کانگریس دوسرے لفظوں میں انڈیا بلاک کے ساتھ مل کر دہلی فتح کا خواب دیکھے،ورنہ اس کی مشکلات میں اضافہ،یقینی ہے۔دہلی فتح کا خواب کہیں دور کی بات نہ ثابت ہو۔دیکھا یہ گیا ہے کہ دو تین بار کی حکومت کے بعد عوام حکمراں جماعت سے اوب جاتے ہیں۔اوڈیشہ کی مثال سامنے کی ہے۔کون جانتا تھا کہ اس بار نوین پٹنائک کی ایسی کراری ہار ہو گی اور ریاست میں بی جے پی کی حکومت بنے گی۔لہٰذا آپ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔کہیں مظفر رزمی کا یہ شعر صادق نہ آ جائے:

وہ دور بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی،صدیوں نے سزا پائی

اوپر سے اروند کجریوال نے ایک اور قدم اُٹھا یا ہے کہ جیل سے باہر آنے کے بعد انہوں نے محترمہ آتشی کو وزیراعلیٰ بنا دیا اور خود الیکشن میں عوام کے ذریعہ خود کو صاف اور کلین ثابت کرنے میں لگ گئے۔ہو سکتا ہے اروند کجریوال کا یہ فیصلہ آپ کو فائدہ پہنچائے،لیکن یہ سیاست ہے۔یہاں سب کچھ اپنی مر ضی سے نہیں ہوتا۔کام بھی کام نہیں آتے۔ مثال کے طور پر یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادوکو پیش کیا جا سکتا ہے۔اکھلیش یادو نے ریاست میں خوب کام کیے تھے۔یمنا ایکسپریس وے ایسا بنایا کہ کئی جگہ تو اس کا استعمال رن وے کے طور پر کیا جاسکتا ہے۔ریاست کی راجدھانی لکھنؤ میں میٹر و کا جال بچھانے اور میٹرو چلانے کا کام کیا۔لیکن نتیجہ کیا ہوا ؟2017کے اسمبلی الیکشن میں ان کی جیت کے آثار بہت زیادہ تھے مگر کیا ہوا؟ بی جے پی جیت گئی۔اب سیاست میں کام کوئی معنی نہیں رکھتے۔میں نے مانا کہ عام آدمی پارٹی نے دہلی کے عوام کا اپنے کاموں سے دل جیت لیا ہے۔سرکاری اسکولوں کا معیار پرائیویٹ اسکولوں کے برابر اور کہیں کہیں ان سے بہترہے، محلہ کلینک، شرکاری اسپتالوں کی کایا کلپ، 200 یونٹ بجلی فری،پانی مفت،غریبی ریکھا سے نیچے گزر بسر کرنے والوں کو راشن فری، روڈ نالیاں، راستے، کوڑا اٹھانے وغیرہ کا بہتر انتظام، بزرگ پنشن،لڑکیوں کی امداد وغیرہ کاموں سے سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور دوسروں کو بھی راہ دکھائی۔ یہ سب تو ٹھیک ہے اور ہو سکتا ہے آپ کو ان کا فائدہ ملے۔

اروند کجریوال، منیش سسودیا، سنجے سنگھ،ستیندر جین وغیرہ کے جیل جانے سے آپ کی تھوڑی بہت ساکھ کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔یہ نقصان بہت کم ہے۔یہ بھی بی جے پی کی ایک چال ہوسکتی ہے مگر بات کا بتنگڑ بنتا ہے،بے بات نہیں۔ان لیڈران کا کچھ تو قصور ہوگا۔یہ فیصلہ تو اب دہلی کے عوام کو کرنا ہے۔محترمہ آتشی فی الحال وزیراعلیٰ ہیں اور ان کا سیاسی کریئر بے داغ ہے۔چمپئی سورین کی طرح ان کو بھی ’’ستّا سکھ‘‘ بھا جائے اور وہ بھی بغاوت کردیںتو۔۔؟ چمپئی سورین کی بات الگ تھی۔آتشی کا اچھا خاصا ریکارڈ ہے۔ عوام میں ان کی پوزیشن اچھی ہے،پھر وہ ایک خاتون ہیں اور اچھی پالیساں بنانے اور انہیں نافذ کر نے میں ماہر بھی۔انتخابات سے قبل اور بعد میں بھی دوسری پارٹیاں ان پر ڈورے ڈال سکتی ہیں۔آپ کو اس طرف بھی توجہ صرف کرنی ہوگی۔

دوسرے کانگریس روز بہ روز مضبوط ہو رہی ہے۔مر کز میں راہل گاندھی کے اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد بہت کچھ بدلا ہے۔پھر پرینکا گاندھی کی شکل میں خواتین کے درمیان ایک مقبول لیڈر بھی ان کے پاس ہے۔آج بھی ملک کے بہت سے لوگ ان میں سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی کی شبیہ دیکھتے ہیں۔آپ ان کی شہرت اور مقبولیت سے انکار نہیں کر سکتے۔اس بار کے دہلی انتخابات کے نتائج کانگریس کے لیے گزشتہ الیکشن سے الگ ہوں گے۔اس بار کانگریس کے نتائج چونکا سکتے ہیں۔ کانگریس پرینکا گاندھی کو دہلی کی وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کر سکتی ہے،کیوںکہ پرینکا میں شیلا دیکشت کا متبادل ہونے کے سبھی اوصاف ہیں۔ ایسے میں اروند کجریوال کی چال الٹ بھی ہوسکتی ہے۔ کانگریس کو کم نہیں آنکا جا سکتا۔

تیسری طرف بی جے پی ہے جو دہلی اسمبلی کی کئی سال حکمراں رہی ہے۔مرکز میں تیسری بار بی جے پی نے حکومت بنائی ہے۔اس کے پاس دہلی میں بہت کچھ ہے۔ بہت سے اعلیٰ عہدوں پر ان کے آدمی ہیں۔بی جے پی جیت کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔مہاراشٹر کا الیکشن سامنے ہے، وہاں کیا ہوا ؟ وہاں انڈیا کی فتح کی بہت زیادہ امیدیںتھیں۔شیوسینا ( شندے)، این سی پی( اجیت ) اور بی جے پی یعنی این ڈی اے کی ہار کے پورے چانس تھے مگر نتیجہ کیا ہوا؟ ایسے میں اروند کجریوال کو کیا لگتا ہے وہ بہ آسانی دہلی فتح کر لیں گے؟ یہ دیوانے کا خواب ہو سکتا ہے،حقیقت نہیں۔

اروند کجریوال اور آپ کو اگر دہلی فتح کرنی ہے تو بی جے پی سے خبر دار رہنا ہو گااور اپنی ضد چھوڑ کر کانگریس کو ساتھ ملانا ہوگا تا کہ انہیں صرف بی جے پی سے لڑنا پڑے۔دونوں پارٹیاں مل کر بی جے پی سے اچھا مقابلہ کر سکتی ہیں اور اس میں کجریوال کے ہی وزیراعلیٰ بننے کی زیادہ امیدیں ہیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS