مولانا امین عثمانی ندوی کی وفات پر مختلف مقامات پر تعزیتی نشستیں

0

نئی دہلی (پریس ریلیز)
اسلامک فقہ اکیڈمی نئی دہلی کے سکریٹری اور کئی دینی اداروں اور تنظیموں کے روح رواں مولانا محمد امین عثمانی ندوی کی وفات پر  شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے گوگل میٹ کے ذریعہ تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز صدر شعبۂ پروفیسر عبدالماجد قاضی کے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا امین عثمانیؒ کا شمار صرف اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے بانیان ہی میں نہیں ہوتا بلکہ آپ کا شمار ہندوستان کے صف اول کے فقہاء میں ہوتا تھا، مرحوم کو ہمارے شعبہ سے دلی لگاو ٔ تھا اور ان کے تعاون سے چند سال قبل شعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ایک شاندار علمی سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اسلامک فقہ اکیڈمک کے قیام میں بنیاد کے پتھر کی حیثیت سے انہیں یاد کیا ہے، مولانا امین ندوی ایک دانشور، بڑے مفکرتھے،آج ان کے رخصت ہونے سے ہم سب کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ پروفیسر حبیب اللہ خان نے کہا کہ مولانا امین عثمانی کو میں بھی ندوہ میں اپنی طالب علمی کے زمانہ سے ہی جانتا  ہوں، وہ اپنے دور کے ممتاز طلبا میں شمار کئے جاتے تھے، آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کی آپ سے جہاں بھی ملاقات ہوتی تھی ہمیشہ مسکرا کر خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ڈاکٹر نسیم اختر نے کہا کہ مولانا امین عثمانی اقبال کے یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم کے مصرع کے مصداق تھے۔ ڈاکٹر فوزان احمد نے کہا کہ مولانا امین عثمانی صاحب کے اخلاق سے میں بہت متاثر تھا، ان کا حافظہ بہت قوی تھا، وہ بہت خوش مزاج تھے اور جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تھی تو مسکرا کر ملتے تھے۔اس پروگرام میں بطور خاص پروفیسر خالد علی حامدی ، ڈاکٹر ہیفاء شاکری، ڈاکٹر صہیب عالم، ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی، ڈاکٹر محفوظ الرحمن اور ڈاکٹر عظمت اللہ اور شعبہ کے ریسرچ اسکالرس نے شرکت کی۔
دوسری جانب آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ ان کی وفات علمی، تحریکی اور مذہبی تحقیقی امور سے وابستہ تمام افراد اور رجال کار کے لیے بہت اندوہ ناک سانحہ ہے۔ ان کی رحلت علمی اور فقہی حلقوں کا بہت بڑا خسارہ ہے، جس کی تلافی ممکن نہیں۔ انھوں نے کہا کہ مولانا دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤمیں ایک ذہین اور محنتی طالب علم کی حیثیت سے اپنے ہم عمروں اور اساتذہ میں بھی مشہور تھے، ان کی کتابی اور عربی زبان میں تحریر و تقریر کی صلاحیت قابل رشک تھی۔ یہی وجہ تھی کہ رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد جب انھوں نے دار الحکومت دہلی کو اپنا مرکز عمل بنایا، تو اپنے علمی، فقہی، دعوتی،تحقیقی اور اسلامی کاموں اور اپنی مختلف النوع تنظیمی سرگرمیوں سے جہان علم و فقہ کو اپنا گرویدہ کرلیا۔وہ مسلکی اور فروعی اختلافات سے گریزاں رہتے تھے اور امت کو ایک مرکزی نقطہ پر مجتمع کرنے کی فکر کیا کرتے تھے۔
مولانا قاسمی نے کہاکہ مرحوم عثمانی ایک متحرک و فعال اور سراپا عمل عالم دین تھے، جنھوں نے نام و نمود اور صلہ و ستائش سے بے پروا ہوکر خلوص و سادگی کے ساتھ اسلامک فقہ اکیڈمی اور دوسرے اسلامی اور تعلیمی اداروں کے پلیٹ فارم سے جووقیع خدمات انجام دی ہیں، وہ نئی نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ وہ زبردست تنظیمی صلاحیت کے حامل منتظم و ذمہ دار تھے، جنھوں نے قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے بنائے ہوئے نقشے پرغور و فکر کیا اورفقہی تحقیقی کارناموںکا شان دار محل تعمیر کردیا اور ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہوئے۔ 
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS