ہندوستان مختلف ریاستوں کا وفاق ہے۔بنیادی طور پر وفاق اور ریاستیں آئین کے ذریعہ تخلیق کردہ اکائیاں ہیں اور دونوں ہی اپنے اپنے اختیارات آئین سے ہی اخذ کرتی ہیں۔ ایک اکائی اپنے دائرۂ اختیار میں دوسری اکائی کے تابع نہیں ہے بلکہ وفاق اور ریاستوں کا اختیار ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔لیکن اقتدار کی خواہش وفاق کی اس بنیادی روح پر شب خون مارنے کیلئے بے قرار ہے۔ کہیں گورنروں کے ذریعہ ریاستوں کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کی جاتی ہے تو دہلی اور پڈوچیری جیسی ریاستوں اور مرکزی علاقوں کی گردن میں لیفٹیننٹ گورنر کا طوق ڈال کر ریاستی قانون سازیہ کی مشکیں کسی جاتی ہیں۔وفاقی حکومت یعنی مرکز کی مودی حکومت کی ایسی ہی ایک کوشش کو ملک کی عدالت عظمیٰ نے آج ناکام بنادیا۔ ریاست دہلی کے اختیارات سے متعلق معاملہ کو فیصل کرتے ہوئے عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ دہلی کی ریاستی حکومت کو امن عامہ، پولیس اور اراضی کے ماسوا دیگر تمام معاملات میں قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ یعنی دہلی حکومت ان تین شعبۂ جات کو چھوڑ کر اپنے اصول اور قانون بناسکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی واضح کردیا کہ دہلی، مرکز کے زیرا نتظام دوسرے علاقوں کی طرح نہیںہے اور دہلی حکومت کے پاس افسران کے تبادلے کا بھی اختیار ہے۔
دہلی حکومت کے سر پر مرکز کی جانب سے نامزد لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے دہلی کی کجریوال حکومت کے ذریعہ کیے گئے افسران کے تبادلوں پر روک لگا دی تھی اور معاملہ عدالت تک جاپہنچاتھا۔ ریاستی حکومت کاموقف ہے کہ آئین کی دفعہ239الف الف کے تحت دہلی کی ایک منتخب حکومت ہوتی ہے جو عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔منتخب حکومت سب سے اہم ہے، پورے ملک کا یہی نظام ہے۔دہلی میں ایک منتخب حکومت پر نامزد گورنرکو کیسے ترجیح دی جاسکتی ہے، یہ سراسر آئینی اقدار کے خلاف ہوگا۔امور ریاست چلانے کیلئے لیفٹیننٹ گورنر سے ہر معاملے میں اجازت طلب کرنا غیر آئینی ہے۔ وفاق کی روح یہ ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر کو کابینہ کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔
اس کے برعکس مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ دہلی کا قومی دارالحکومت علاقہ ہے، اس لیے اس پر مرکزی حکومت کا موثر کنٹرول ضروری ہے اور 69ویں آئینی ترمیم کے مطابق دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کا اختیار دوسری ریاستوں کے گورنر کے اختیار سے الگ ہے۔دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو آئین کے تحت مراعات حاصل ہیں۔اسمبلی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دہلی ایک ریاست ہے اور اسے دوسری ریاستوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔دہلی ایک مکمل طور پر مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے اور حتمی اختیار مرکز کے ذریعے صدر کے پاس ہے۔ مرکزی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئین کی دفعہ 239 الف الف (4) میں لیفٹیننٹ گورنر اور ان کی کابینہ کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ دہلی کے نظم و نسق کی بنیادی ذمہ داری لیفٹیننٹ گورنر کو دی گئی ہے۔
اختیار ات کی کھینچ تان میں معاملہ کئی بار عدالت تک بھی پہنچا، اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے میں فیصلہ سنایا تھا لیکن آج عدالت عظمیٰ نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ دہلی میں بتائے گئے استثنیٰ کے ساتھ تمام اختیار ات دہلی حکومت کو حاصل ہیں۔ افسران کے تبادلے، تقرری سے متعلق فیصلے کا بھی اختیار ریاستی حکومت کو ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دہلی قانون ساز اسمبلی کو عوام کی مرضی کے مطابق قانون بنانے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ ریاست دہلی کے انتظامی اختیارات ان تمام محکموں تک پھیلے ہوئے ہیں جن میں اسے قانون بنانے کا اختیار ہے۔ کسی ریاست میں مرکز کااختیار ان معاملات پر ہوتا ہے جن پر مرکز اور ریاست دونوں قانون بنا سکتے ہیں۔ ریاست کا نظم و نسق مرکز نہیں چلاسکتا ہے۔ جمہوریت اور وفاقیت کا اصول ہمارے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ وفاقیت متنوع مفادات کے وجود کو یقینی بناتی ہے اور متنوع ضروریات کو پورا کرتی ہے۔آئین کے مطابق انتظامیہ کی اصل طاقت حکومت کی منتخب شاخ کے پاس ہونی چاہیے نہ کہ ریاستوں کی حکمرانی مرکز کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اس سے وفاقی نظام حکومت اور نمائندہ جمہوریت کے اصول مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔
دہلی کے وزیراعلیٰ اروندکجریوال نے اس فیصلہ پر عدالت عظمیٰ کے تئیں تشکر اور ممنونیت کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ’غیرآئینی طریقوں سے ریاستوں کی منتخب حکومت گرانے کے مشن پر کرارا طمانچہ ہے‘۔ اس فیصلہ سے دہلی حکومت کو ترقیاتی کاموں کے آڑے آنے والی بیوروکریسی کو لگام دینے کا اختیار مل گیا ہے۔
یہ فیصلہ جہاں دہلی کی کجریوال حکومت کی ایک بڑی جیت ہے، وہیں ریاستوں کے معاملات میں مرکزکی بڑھتی مداخلت پر روک بھی لگا رہا ہے۔اس فیصلہ نے آئین کے گرد پڑے ابہام کے ان جالوںکو بھی صاف کردیا ہے جسے مرکزی حکومت دام تمنا بنائے ریاستوں کو شکارکرنے کے منصوبے بنارہی تھی۔
[email protected]
دہلی – مرکز:اختیارات کی تقسیم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS