جمنا کے تئیں لاپروائی سے پیاسی دہلی: پنکج چترویدی

0

پنکج چترویدی

’’ریور‘‘ سے ’’سیور‘‘ بن گئی دہلی میں جمنا کو نئی زندگی دینے کے لیے آج سے تقریباً 9 سال پہلے نیشنل گرین ٹریبونل یعنی این جی ٹی نے ایک حکم جاری کیا تھا کہ دہلی میں ندی کا جہاں تک بہاؤ ہے یعنی اس کا فَلڈ پلین یا کچھار ہے، اس کی حد بندی کی جائے،تاہم گرمیوں میں جمنا کے ذریعے چھوڑی گئی زمین پر قبضہ کرنے میں نہ سرکاری محکمے پیچھے رہے اور نہ ہی زمین مافیا۔ ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جسے اس جگہ کو نشان زد کرنا تھا جہاں اپنے مکمل جوبن پر آنے پر ندی کی زیادہ سے زیادہ توسیع ہوتی ہے۔
نہ کبھی کسی نے جانا کہ ساون-بھادوں میں جب ندی میں جم کر پانی ہوتا ہے تو اسے اطمینان سے بہنے کے لیے کتنی زمین چاہیے اور نہ ہی کبھی فکر کی گئی کہ ندی کی گہرائی کم ہونے سے کس طرح آبی نظام درہم برہم ہو رہا ہے۔ یہ بات سرکاری بستوں میں درج ہے کہ جمنا کے دہلی میں داخلے وزیرآباد بیراج سے لے کر اوکھلا بیراج تک کے 22 کلومیٹر میں 9700 ہیکٹیئر کی آب گیری زمین پر اب پختہ تعمیرات ہوچکی ہیں اور اس میں سے 3638 ہیکٹیئر کو دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی خود قانونی بنا چکی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہاں پوری طرح سرکاری تجاوزات ہوئیں- جیسے100 ہیکٹیئر میں اکشردھام مندر، کھیل گاؤں کا 63.5 ہیکٹیئر، یمنا بینک میٹرو ڈپو 40 ہیکٹیئراور شاستری پارک میٹرو ڈپو 70 ہیکٹیئر۔ اس کے علاوہ آئی ٹی پارک، دہلی سکریٹریٹ، مجنوں کا ٹیلہ اور ابو فضل انکلیو جیسے بڑے قانونی اور غیر قانونی تجاوزات میں اب بھی ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ اراولی سے چل کر نجف گڑھ جھیل میں ملنے والی صاحبی ندی اور اس جھیل کو جمنا سے جوڑنے والی قدرتی نہر کا نالہ بننا ہو یا پھر سرائے کالے خاں کے پاس بارہ پلا یا پھر ساکیت میں کھڑکی گاؤں کاسات پُلا یا پھر لودھی گارڈن کی نہریں، درحقیقت یہ سب جمنا میں جب کبھی استطاعت سے زیادہ پانی آجاتا تو اسے جوہڑ-تالاب میں سنبھال کر رکھنے کا ذریعہ تھیں۔ شہر کو چمکانے کے نام پر ان سبھی صدیوں پرانے ڈھانچوں کو تباہ کیا گیا، اس لیے نہ اب بارش کا پانی تالاب میں جاتا ہے اور نہ ہی بارش کے دنوں میں سڑکوں پر پانی جمع ہونا رُک پاتا ہے۔ این جی ٹی ہر سال حکم دیتا ہے لیکن سرکاری محکمے بھی کاغذ کی کشتیاں چلا کر ان احکامات کو پانی میں ڈبو دیتے ہیں۔ دہلی میں زیادہ تر جگہوں پر پکی سڑکیں یا گلیاں ہیں، یعنی یہاں بارش کے پانی کو کم سے کم بربادی کے ساتھ جھیلوں اور تالابوں تک پہنچانا آسان ہے، بدقسمتی سے اس شہر میں بارش کا اسّی فیصد پانی گندے نالوں کے ذریعے ندی تک پہنچنے میں ہی برباد ہو جاتا ہے۔ پھر ندی بھی اپنی گنجائش سے 50 فیصد کم چوڑی اور گہری رہ گئی ہے اور اس میں بارش کے پانی سے زیادہ فضلات اور صنعتی کچرا آتا ہے۔ جمنا کی گہرائی کم ہونے کا جو برا اثر ہوتا ہے،اسے سمجھنے کے لیے وزیر آباد واٹر پلانٹ کی مثال ہی کافی ہے۔ یہ پلانٹ وزیر آباد بیراج کے قریب بنائے گئے ریزروائر سے پانی لیتا ہے۔ اس آبی ذخائر کی گہرائی 4.26 میٹر تھی۔ اس کی گاد کو صاف کرنے کے بارے میں کسی نے سوچا نہیںاور اب اس میں ایک میٹر سے بھی کم 0.42 میٹر پانی بھرنے کی صلاحیت رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 134 ایم جی ڈی گنجائش والا پلانٹ آدھا پانی بھی نہیں نکال پا رہا ہے۔
آج تو دہلی پانی کے لیے پڑوسی ریاستوں پر منحصر ہے لیکن یہ کوئی تکنیکی اور دور رس حل نہیں ہے۔ دہلی شہر کے پاس جمنا جیسی ہمیشہ بہنے والی ندی کا 42 کلومیٹر لمبا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ 600 سے زیادہ تالاب ایسے ہیں جو کم بارش ہونے کے باوجود سال بھر میٹروپولیٹن شہر کو پانی سپلائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر دہلی کی حدود میں جمنا کی صفائی کے ساتھ ساتھ گاد کو نکال کر اس کی مکمل گہرائی حاصل کی جائے، اس میں تمام نالے گندا پانی چھوڑنا بند کر دیں تو صرف 30 کلو میٹر ندی، جس کی گہرائی دو میٹر ہوتو اس میں اتنا صاف پانی سال بھر رہ سکتا ہے جس سے دہلی کے ہر گھر کو وافر مقدار میں پانی مل سکتا ہے۔ واضح ہو کہ گرمیوں میں ندی کا بہاؤ کم ہوتا ہے لیکن اگر گہرائی ہوگی تو پانی کا مستقل ذخیرہ رہے گا۔ ہریانہ حکومت اسرائیل کے ساتھ مل کر جمنا کی کایا پلٹ کا منصوبہ بنا رہی ہے اور اس سمت میں ہریانہ کے محکمہ آب پاشی نے اپنے سروے میں پایا ہے کہ جمنا میں گندگی کی وجہ سے دہلی میں سات ماہ پانی کی قلت رہتی ہے۔ دہلی میں جمنا، گنگا اور زیر زمین پانی سے روزانہ 1900 کیوسک پانی کا استعمال ہوتا ہے۔ اس میں سے 60 فیصد یعنی تقریباً 1100 کیوسک سیوریج کا پانی جمع ہوتا ہے۔ اگر اس پانی کو صاف کرکے جمنا میں ڈالا جائے تو جمنا صاف رہے گی اور دہلی میں پینے کے پانی کی قلت بھی دور ہوجائے گی۔
2019 میں جمنا کے کناروں پر ایک تجربہ کیا گیا تھا- وہاں گہرے گڑھے بنائے گئے تھے تاکہ جب پانی جمع ہو تو ان کے ذریعہ زمین میں جذب ہو جائے۔ اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ پھر اس منصوبے میں زمین کے مقابلے کاغذ پر زیادہ گڑھے کھودے جانے لگے۔ ویسے این جی ٹی 2015 میں ہی دہلی کے جمنا کے کناروں پر ہر قسم کی تعمیرات پر پابندی عائد کرچکا ہے۔ اس سے بے پروا سرکاریں مان نہیں رہیں۔ ابھی ایک سال کے اندر ہی لاکھوں اعتراضات کے باوجود سرائے کالے خاں کے قریب ’’بانس گھر‘‘کے نام سے ایک کیفے ٹیریا اور دیگر تعمیرات کی گئیں۔
جب دہلی بسی ہی اس لیے تھی کہ یہاں جمنا بہتی تھی، تو جان لیں کہ دہلی بچے گی بھی تبھی جب جمنا بہتی رہے گی۔ دہلی کی پیاس اور سیلاب دونوں کا حل جمنا میں ہی ہے۔ یہ بات کوئی پیچیدہ راکٹ سائنس نہیں ہے لیکن بڑے بڑے ٹھیکے، بڑے دعوے، ندی سے نکلی زمین پر اور زیادہ قبضے کا لالچ جمنا کو زندہ نہیں رہنے دے رہا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ندی میں پانی کا رہنا پانی کے بحران کا ہی حل نہیں ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی مار کی وجہ سے شدید گرمی، سردی اور بارش کا سامنا کرنے کا بھی واحد حل ندی کا صاف پانی سے لبالب ہونا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS