پروفیسر اسلم جمشید پوری
دہلی میں جوں جوں انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں سیاسی جماعتوں کی سر گر میاں تیز ہوتی جارہی ہیں۔ہر طرف سیاسی خمار چڑھنے لگا ہے۔دہلی میں تین جماعتیں بی جے پی،کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہی اہم ہیں۔ان ہی تینوں سیاسی جماعتوں کی ماضی میں بھی حکومت رہی ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے تو عام آدمی پارٹی کی دہلی پر بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت رہی ہے،بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دہلی پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ رہا ہے۔آئندہ بھی عام آدمی پارٹی دہلی پر اپنا قبضہ رکھنا چاہتی ہے۔اسے کسی قیمت پر بھی بی جے پی پسند نہیں۔کانگریس تو اسے دہلی کے معاملے میں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔دہلی پر از سر نو قبضہ کرنے کے لیے آپ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔خواہ اسے ’انڈیا‘ سے الگ ہونا پڑے۔
دہلی کا اسمبلی انتخاب اور مسلمانوں کی حکمت عملی،جب اس موضوع پر غور کیا جاتا ہے تو مختلف جوابات آتے ہیں۔ دہلی میں آبادی کا تناسب کیا ہے؟تو پہلے ہم دہلی کے بارے میں کچھ جان لیتے ہیں۔ زمین(رقبہ) کے اعتبار سے دہلی، ہندوستان میں سب سے بڑا شہر ہے۔اس کا رقبہ 1483مربع کلو میٹر ہے۔ جس میں 35.369 مربع کلو میٹر رورل اور 65.1113مربع کلو میٹر اربن علاقہ شامل ہے۔اس کی لمبائی51.9 کلو میٹر اور چوڑائی48.48 کلو میٹر ہے۔اس کی کل آبادی تقریباً3 کروڑ38 لاکھ 7ہزار 400 ہے۔جس میں12.78 فیصدمسلمانوں کی آبادی ہے۔ یعنی مسلمان دہلی میں22لاکھ کے آس پاس ہیں۔ دہلی میں اسمبلی کی 70نشستیں ہیں۔پوری دہلی میں11ضلع سینٹرل دہلی، ایسٹ دہلی، نئی دہلی، نارتھ دہلی، نارتھ ایسٹ دہلی، نارتھ ویسٹ دہلی، شاہدرہ، سائوتھ دہلی، سائوتھ ویسٹ دہلی،سائوتھ ایسٹ دہلی،ویسٹ دہلی ہیں۔
مسلم آبادی یوں تودہلی کے ہر ضلع میں موجود ہے لیکن دہلی کے کئی ایسے علاقے ہیں،جہاں مسلم امیدوار فتح حاصل کرسکتے ہیں،یا مسلمان جسے چاہیں اسے اسمبلی پہنچا سکتے ہیں،دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ دہلی میں ایسے کئی علاقے ہیں جہاں کی مسلمان آبادی الیکشن کا رخ بد ل سکتی ہے۔اوکھلا( جامعہ نگر،ذاکر نگر،ابوالفضل انکلیو، شاہین باغ، نورنگر، جسو لہ وہار)،سیلم پور،للتا پارک، پارک اینڈ، ہمدرد نگر، بلی ماران، جعفرآباد، مٹیا محل، نظام الدین،مصطفی آباد، گھونڈہ، رٹھالہ، چاندنی چوک، شاہدرہ، کھجوری پشتہ، دریا گنج، جہانگیر پوری، اندرلوک، شہزاد باغ، بیری والا باغ، باڑہ ہندو رائو، وجے پارک،نبی کریم، نور ِ الٰہی،چاند باغ، چوہان بانگڑ،کراول نگر، سنگم وہاروغیرہ دو درجن سے زائد ایسے علاقے ہیں، جہاں سے مسلمانوں کے ووٹ اکثریت میں مل سکتے ہیں۔یہ وہ علاقے ہیں جو الیکشن کا پلڑہ کسی طرف بھی جھکا سکتے ہیں۔مگر افسوس کہ ان علاقوں کے مسلمانوں میں ملّی ایکتا نہیں ہے۔الیکشن میں کئی کئی مسلم امیدوار کھڑے ہوجاتے ہیں اور دوسرے امیدوار جیت جاتے ہیں۔
دہلی کے مسلمانوں کے پاس دو متبادل ہیں۔ کانگریس اورعام آدمی پارٹی،ان دونوں کا یوں تو ’ انڈیا‘ گروپ سے تعلق ہے اور لوک سبھا انتخاب ان دونوں نے مل کر لڑا تھا۔ہریانہ اسمبلی الیکشن میں دونوں اپنے اپنے دم پر لڑے۔کانگریس کو 30 سیٹوں پر کامیابی ملی، جبکہ عام آدمی پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہیں مل پائی۔بی جے پی کو 40 سیٹیں ملیں اور اس نے کسی طرح وہاں حکومت بنائی۔عام آدمی پارٹی اور کانگریس ہریانہ میں مل کر مقابلہ کرتے تو ’ انڈیا‘ گروپ کی جیت یقینی تھی اور آسانی سے وہاں انڈیا کی سرکار بنتی،مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔اب دہلی کے مسلمانوں کا سخت امتحان ہے،وہ کسے ووٹ دیں؟ کانگریس کو یا عام آدمی پارٹی کو ؟تقریباً دونوں کی ایک دہائی سے زائد دہلی پر حکومت رہی ہے۔ دونوں کے مسلمانوں کے لیے کاموں پر بھی نظر ڈال لیں۔
آپ یعنی عام آدمی پارٹی کا وجود ’’انا تحریک ‘‘ کے بعد عمل میں آیا۔پارٹی کی قیادت اروند کجریوال نے کی۔ اروند کجریوال نے پہلے کھڑگ پور سے میکانیکل انجینئرنگ کی پھر جمشید پور میں ٹاٹا کمپنی میں ملازمت کی۔اس کے بعد آئی آر ایس بنے اور دہلی کے انکم ٹیکس کمشنر ہوئے۔یہاں سے انہوں نے انّا ہزارے کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے خوب محنت کی۔بعد میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ بنائی اور دہلی کے الیکشن میں مقابلہ کیا۔اروند کجریوال تین بار وزیراعلیٰ رہے۔ اروند کجریوال نے زمینی سطح کی سیاست کر کے ایک مثال قائم کی۔انہوںنے حکومتی سطح پر وہ کچھ ایساکر کے دکھایا جو سیاست میں نا ممکن تھا یا انتہائی مشکل تھا۔انہوں سب سے پہلے200یونٹ تک بجلی فری کی۔سرکاری اسکولوں کی حا لت نا گفتہ بہ تھی۔عام آدمی پارٹی کی سرکار نے ان کی کایا پلٹ کر دی۔محلہ کلینک کھولے،خواتین کا بس میں سفر فری کیا۔بزرگوں کی پنشن شروع کی۔راشن تقریباً مفت کیا۔یہ سب اور دوسرے کام بھی کیے جو دہلی کے عوام کے لیے تھے۔مسلمانوں کے لیے کیا کیا؟اپنی وزارت میں ایک بھی اہم وزارت مسلمان کو نہیں دی۔دہلی وقف بورڈ، حج کمیٹی، اردو اکادمی میں مسلمان کو رکھنا مجبوری تھی۔ان شعبوں میں کوئی حیرت انگیز کارنامہ ان کے دور میںنہیں ہوا۔ سی اے اے کے خلاف جب خواتین کا احتجاج کئی ماہ چلا تو اروند کجریوال وزیراعلیٰ تھے۔نہ کوئی بیان احتجاج کی حمایت میں دیا اور نہ ہی جلسہ گاہ میں جانے کی زحمت کی۔جبکہ زیادہ تر سیکولر لوگ وہاں گئے تھے۔2020 میں دہلی میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد ہوئے۔ مسلمانوں کا مالی اور جانی نقصان ہوا۔انہیں ڈرایا اور دھمکایا گیا،ایسے حالات میں عام آدمی پارٹی کا کیا رول تھا؟
کانگریس اور دہلی کے مسلمانوں کے رشتے کا پتہ لگاتے ہیں۔کانگریس ایک صدی سے زائد برسوں سے ہندوستان کی خد مت کر رہی ہے۔یہ واحد پارٹی ہے جس نے ہمیں آزادی دلائی۔شیلا دیکشت نے تین بار وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا۔ کانگریس کے دور میں چودھری متین، ہاشمی، ہارون یوسف اور شعیب اقبال کی شکل میں مسلم چہرے ہمیشہ ہمارے سامنے رہے۔شیلا دیکشت نے دہلی کو دنیا کے خوبصورت شہروں میں لا دیا۔ خوش نما پارک، کشادہ سڑکیں، لمبے اور خوبصورت پل، اوور برج، شاندار عمارتیں، بازار، ناموں کی تختیاں اور گیٹ،بس اڈوں کا بہتر انتظام،میٹرو کی شروعات،پوری دہلی میں سی این جی بسوں کا جال وغیرہ سے پورے شہر کو مزین کیا۔شاہین باغ احتجاج معاملہ ہو یا دہلی فرقہ وارانہ فساد،کانگریس کبھی کھل کر یا ڈھکے چھپے طور پر بھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں آئی۔بابری مسجد کا زخم ضرور وقت کے ساتھ مندمل ہوگیا ہو مگر اس کی ٹیس اب بھی مسلمانوں کے دل میں ہے۔تازہ حال یہ ہے کہ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے اب کانگریس کی کمان سنبھال رکھی ہے۔ کانگریس اب پہلے جیسی نہیں ہے،مگر اب بھی مسلمانوں کی آواز اٹھا نا تو دور یہ پارٹی نام بھی کھلے طور پر لینا پسند نہیں کرتی۔
ایسے میں مسلمانوں کے پاس ایک اور متبادل ہے،جو بہت کمزور ہے۔یعنی مسلمان خود اپنے دم پر اپنی قسمت آزمائیں۔مگر اس میں بہت بڑا رسک ہے۔دہلی کے مسلمانوں کا کوئی قائد نہیں ہے۔خود ان کی آبادی اتنی نہیں ہے کہ مسلم ووٹ یکمشت مل بھی جائیں تو وہ جیت پائیں۔ دوسرے مسلمانوں کا ایک ہونا بہت ہی مشکل ہے کیوں کہ زیادہ تر لوگ مختلف پارٹیوں میں بٹے ہیں۔ ایسے لیڈروں کی بے حد کمی ہے بلکہ ہیں ہی نہیں،جن پر ہندواور سکھ بھائی بھی اعتماد کریں یا ان کو ووٹ دیں۔تو خالص مسلمانوں کی پارٹی بنانا، خود کشی کے مترادف ہے۔یہ عمل مناسب ہو سکتا ہے جب مسلمانوں کا اپنا بیس ووٹ بینک ہو اور امیدواروں کا اخلاق و کردار اچھا ہو۔ پھر اس عمل میں مستقل مزاجی، لمبا وقت اور عوامی فلاح و بہبود کے کام ہوں۔یہ اب شاید ممکن نہیں ہے۔لیکن یہ نا ممکن بھی نہیں،اس کی شروعات ہوسکتی ہے۔
عام آدمی پارٹی،کانگریس،بی جے پی، ان تینوں متبادل میں مسلمان مجبوراً کسی ایک کو چنے گا۔ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دے گا۔اب کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہی بچتی ہیں۔دونوں کے ووٹ بینک ایک جیسے ہی ہیں۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ کسی بھی حلقے میں ایسا امیدوار جو دوسروں سے بہتر ہو،اس میں بی جے پی کو ہرانے کی طاقت ہو اور جو مسلمانوں اور اردو کا خیال رکھ سکے اور سیکو لر ذہن بھی رکھتا ہو، خواہ اس کاتعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، اس کو متحد ہوکر مسلمانوں کو سپورٹ کرنا چاہیے، ساتھ ہی الیکشن کے بعد بھی مسلم ایم ایل اے حضرات میں اتحاد ہونا چاہیے۔کسی بھی مسلم ایشو پر سب کو مل کر لڑائی لڑنی چاہیے۔