پاسپورٹ کی تنزلی، وقار کا زوال

0

دنیا کے ممالک کی شناخت اب محض جغرافیہ یا فوجی طاقت سے نہیں، بلکہ ان کے شہریوں کی عالمی رسائی اور نقل و حرکت کی آزادی سے بھی جانی جاتی ہے۔ نوماد کیپٹلسٹ کی جانب سے اپریل 2025 میں جاری کیے گئے تازہ ترین پاسپورٹ انڈیکس میں ہندوستان 199 ممالک کی فہرست میں 149ویں نمبر پر آ گیا ہے۔جب کہ گزشتہ سال2024 میں، ہندوستان کا درجہ 147 تھا۔اس تنزلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی عالمی ساکھ میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔ انڈیکس کے مطابق ہندوستان کے پڑوسی ممالک میں پاکستان 195 ویں نمبر پر، نیپال 180ویں نمبر پر، بنگلہ دیش 181ویں نمبر پر، سری لنکا 168ویں نمبر پراوربھوٹان 140ویں نمبر پر ہے۔یہ درجہ بندیاں ظاہر کرتی ہیں کہ خطے میں ہندوستان کی پوزیشن کمزور ہورہی ہے اور اس کے شہریوں کو عالمی سطح پر محدود مواقع میسر ہیں۔ہندوستانی پاسپورٹ ہولڈرز کو صرف 73 ممالک تک ویزا فری، ویزا آن ارائیول یا الیکٹرانک ٹریول اتھارائزیشن (eTA) کے ذریعے رسائی حاصل ہے۔ یہ تعداد عالمی سطح پر محدود نقل و حرکت کی عکاسی کرتی ہے۔
ہندوستان کا 149واں درجہ محض ایک عددی مقام نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے جو ملک کی داخلی بدنظمی، اقلیت دشمنی اور ناکام خارجہ پالیسی کی ایک ہمہ جہت تصویر پیش کرتا ہے۔ دنیا کے 199 ممالک میں، کوموروس جیسے افریقی ملک کے شانہ بشانہ کھڑا ایک ابھرتی ہوئی معیشت کا دعویدار ملک، اپنی سیاسی ناپختگی، سفارتی بے وزنی اور اندرونی خلفشار کی سزا اپنے شہریوں کو دلا رہا ہے۔
مودی حکومت کی خارجہ پالیسی، جو خودستائی اور نعرہ بازی سے آگے نہ بڑھ سکی، عالمی سطح پر ملک کے وقار کو بڑھانے کے بجائے اس کے تشخص کو مجروح کرگئی۔ پاکستان جیسے دیرینہ حریف سے کچھ ہی پائیدان اوپر ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ خطے میں ہندوستان کا سیاسی و سفارتی اثر محض زبانی دعوؤں تک محدود رہ گیا ہے۔ ویزا فری اسٹیٹس کی کمی، عالمی تصور کی گراوٹ اور ذاتی آزادیوں میں کمی نے ہندوستان کو ان ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے جہاں سے ہجرت ایک مجبوری بن چکی ہے، انتخاب نہیں۔
اندرون ملک صورت حال بھی کوئی امید افزا تصویر پیش نہیں کرتی۔ اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی پالیسیوں، آزادی اظہار پر قدغنوں، عدلیہ و میڈیا کی آزادی کے زوال اور معاشی ناہمواریوں نے ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزور کیا ہے۔ جب ایک ریاست اپنے شہریوں کو برابری، تحفظ اور روزگار دینے میں ناکام ہو تو وہ دنیا کے مہذب ممالک کی نظروں میں بھی غیر قابل اعتماد ٹھہرتی ہے۔ اسی عدمِ اعتماد کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف ویزا فری رسائی محدود ہوگئی، بلکہ کئی ممالک نے ہندوستانی شہریوں کی آمد پر سختیاں بھی عائد کر دی ہیں۔
حکومت کا زور صرف چمکدار تقریروں اور عالمی دوروں پر رہا، مگر ان کے ثمرات نہ تو عالمی درجہ بندی میں دکھائی دیے، نہ ہی ملک کے عام شہری کی زندگی میں بہتری لانے میں معاون ہوئے۔ آئینی اداروں کو کمزور کرنا، سماجی رواداری کو زہر آلود کرنا اور مسلمانوںکو مسلسل خوف کے سائے میں رکھنا، وہ اسباب ہیں جنہوں نے ہندوستان کو ایک بے چہرہ جمہوریت میں بدل دیا ہے۔
ملک سے بڑے پیمانے پر کروڑ پتیوں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کا انخلا، اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ سرمایہ، ذہانت اور امید تینوں اب ہندوستان میںخود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ جنہیں اختیار حاصل ہے، وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں دیگر ممالک کی شہریت خرید رہے ہیں جنہیں اختیار نہیں، وہ ویزا کے بغیر بھی جانے کے راستے تلاش کرتے ہیں۔
یہ انڈیکس صرف یہ نہیں بتا رہا کہ ہندوستانی شہری کہاں کہاں جا سکتے ہیں، بلکہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ وہ کن اسباب کی بنیاد پر وہاں نہیں جا سکتے۔ دنیا ہندوستان کے نظام پر اعتماد نہیں کر رہی، کیونکہ ہندوستان کا نظام خود اپنے شہریوں پر اعتماد کھو چکا ہے۔
جس ملک کی قیادت عالمی سطح پر اپنی جمہوری اقدار کی جگہ مذہبی قوم پرستی اور اکثریتی بالادستی کی نمائندہ بن کر ابھرے، اس کے شہریوں کو آزادیٔ نقل و حرکت کی سہولت کیسے دی جا سکتی ہے؟ عالمی سرمایہ اور باوقار اقوام ایسے ملکوں میں سرمایہ کاری سے ہچکچاتی ہیں جہاںاندرون خانہ نفرت اور خوف کا ماحول قائم ہو۔یہ صورت حال مودی حکومت کیلئے ایک لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے، لیکن افسوس کہ جس حکومت نے قومی وقار کو اعداد و شمار کے کھیل میں بدل دیا ہو، اسے عالمی درجہ بندیوں کی تنزلی بھی فقط ایک ’بیانیہ‘ بنانے کا موقع لگتی ہے۔ مگر قومیں بیانیہ سے نہیں، بین الاقوامی اعتماد، داخلی ہم آہنگی اور آئینی دیانت سے بنتی ہیں۔
یہ پاسپورٹ انڈیکس صرف ایک درجہ بندی نہیں، بلکہ ایک خبردار کرنے والا الارم ہے کہ اگر فوری طور پر نہ صرف خارجہ پالیسی کو دوبارہ متوازن نہ کیا گیا‘ بلکہ اندرون ملک اقلیتوں، جمہوری اقدار اور بنیادی انسانی آزادیوں کا احترام بھی بحال نہ کیا گیا تو ہندوستان کا عالمی تشخص مسلسل زوال کی جانب ہی بڑھے گا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت آئین کی اصل روح کی طرف رجوع کرے، ورنہ پاسپورٹ کا رنگ تو باقی رہے گا، مگر اس کی وقعت مٹتی چلی جائے گی۔
edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS