شرعی قوانین کا دفاع فرض اولین مگر… : صبیح احمد

0

صبیح احمد

آئندہ لوک سبھا انتخابات (2024) سے قبل یونیفارم سول کوڈ کے حوالے سے سیاسی بیان بازی تیز ہوگئی ہے۔ جب سے لا کمیشن (Law Commission) نے نئے سرے سے مشورے اور تجاویز طلب کی ہیں، مختلف سیاسی اور سماجی تنظیمیں متحرک ہو گئی ہیں۔ کچھ تو اپنی آرا پیش کرنے کے لیے سنجیدگی سے اس موضوع پر غور و فکر کر رہی ہیں اور کچھ ایسی ہیں کہ حسب دستور ایسے موقعوں پر بیان بازی کو ہی اپنے فرائض کی ادائیگی تصور کر کے اپنی ذمہ داریاں نبھا لینے پر یقین رکھتی ہیں۔ حالانکہ گزشتہ 70 سالوں کے دوران ہر الیکشن سے قبل یہ ایک گرما گرم ایشو بنتا رہا ہے لیکن اس حوالے سے قومی سطح پر کبھی اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا۔ ’الیکشن جیویوں‘ کو ایک بار پھر نئے انتخابی موضوع کی تلاش ہے اور یونیفارم سول کوڈ کا جن پھر بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار یہ صرف انتخابی ایشو بن کر نہیں رہ جائے گا، بلکہ شاید حقیقی شکل اختیار کرلے۔ مودی حکومت اس میعاد میں بی جے پی کے 3 اہم ایجنڈوں کو مکمل کرنے کا منصوبہ لے کر آئی ہے۔ ان میں رام مندر کی تعمیر اور جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کرنے کا پارٹی کا ایجنڈا مکمل ہوگیا ہے۔ پارٹی کا تیسرا اہم ایجنڈا یکساں سول کوڈ ہے۔ اس حوالے سے حکومت کافی سنجیدہ ہے اور کافی ہوم ورک کرکے قدم آگے بڑھا رہی ہے۔ ملک میں یکساں سول کوڈ کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ایک طویل عرصہ سے ’خاموش رضامندی‘ رہی ہے۔ کئی موقعوں پر سپریم کورٹ اس کی ضرورت پر زور دے چکا ہے۔ اس لیے مرکزی حکومت کو یکساں سول کوڈ لانے میں شاید ہی کوئی قانونی رکاوٹ پیش آئے۔ آخر یونیفارم سول کوڈ ہے کیا؟ اس کے نفاذ کے حوالے سے کچھ لوگ اتنے پر جوش کیوں ہیں اور کچھ لوگوں کو اس سے پریشانی کیوں ہے؟
آسان لفظوں میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کا مطلب ایک سیکولر (غیر مذہبی) قانون ہے جو سبھی مذاہب اور کمیونٹیوں کے لیے یکساں طورپر نافذ ہوتا ہے۔ مختلف مذہب اور کمیونٹی کے لیے الگ الگ قانون نہ ہونا ہی اس کی حقیقی روح ہے۔ اس کا اہم مقصد یہ ہے کہ ملک کے سبھی شہریوں پر یکساں طور پر یہ قانون نافذ ہوگا، خواہ وہ کسی بھی ذات یا کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہوں۔ دراصل ہندوستان میں آئین بناتے وقت یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں کافی بحث و مباحثہ ہوا تھا لیکن اس وقت کی صورتحال میں اس کا نفاذ مناسب نہیں سمجھا گیا، جس کے سبب اسے آئین کے آرٹیکل 44 میں ’پالیسی کے ہدایتی اصول‘ (Directive Principles) کے زمرے میں جگہ دی گئی اور توقع کی گئی کہ جب ملک میں اس حوالے سے عام اتفاق رائے قائم ہوجائے گا تو یونیفارم سول کوڈ وجود میں آ جائے گا۔ سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو 1954-55 میں زبردست مخالفت کے باوجود ہندو کوڈ بل لے کر آئے تھے۔ اس کوڈ کی بنیاد پر ہندو شادی قانون اور جانشینی قانون وضع کیے گئے، یعنی ہندو، جین ، بودھ اور سکھ کمیونٹی کے لیے شادی، طلاق، جانشینی جیسے معاملوں کے ضوابط طے کر دیے گئے لیکن مسلمان، پارسی، عیسائی کمیونٹیوں کو اپنے اپنے مذہبی قوانین یعنی پرسنل لاز کے تحت رعایت دی گئی۔ یہ رعایت ان سبھی کمیونٹیز کے لوگوں کو بھی ملی ہے جو ’ناگا‘ یا ’آدیواسی‘ لوگ ہیں۔ یہ سبھی اپنی روایت کے مطابق ہی قانون پر عمل کرتے ہیں۔
بہرحال آزادی کے 70 سال بعد بھی یونیفارم سول کوڈ کے حوالے سے عام اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکا ہے۔ کئی مواقع ایسے آئے جب سپریم کورٹ نے یکساں سول کوڈ نافذ نہ کیے جانے پر ناخوشی ظاہر کی۔ 1985 میں شاہ بانو کیس اور 1995 میں سرلا مدگل معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ یونیفارم سول کوڈ پر تبصرہ سے اس معاملہ نے طول پکڑا تھا جبکہ گزشتہ دنوں 3 طلاق پر سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ کے بعد بھی اس معاملہ کو ہوا ملی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ نے بھی ملک میں یونیفارم سول کوڈ کی وکالت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو اسے نافذکرنے کے لیے مناسب قدم اٹھانے کیلئے کہا تھا۔ جہاں تک رائے عامہ کا سوال ہے، اس میں تو بہت ہی زیادہ اختلاف ہے۔ ایک جانب جہاں ملک کی اکثریتی آبادی یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کا پرزور مطالبہ کرتی رہی ہے، وہیں اقلیتی طبقہ اس کی سخت مخالفت کرتا ہے۔ اس راہ میں قدم قدم پر بے شمار چیلنجز ہیں۔ ایک طرف جہاں اقلیتی کمیونٹی یونیفارم سول کوڈ کو آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی مانتی ہیں، وہیں اس کے علمبردار یونیفارم سول کوڈ نافذ نہ کرنے کو آرٹیکل 14کی توہین بتا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ثقافتی تنوع سے اس حد تک سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے کہ یکسانیت کے لیے ہماری کوشش علاقائی سالمیت کے لیے ہی خطرہ بن جائے؟ کیا ایک متحدہ ملک کو ’یکسانیت‘ کی اتنی ضرورت ہے کہ ہم تنوع کی خوبصورتی کی پرواہ ہی نہ کریں؟
دراصل ہندوستان کا ایک کثیر ثقافتی ملک ہونا اس معاملے میں بڑا چیلنج ہے۔ ہندو مذہب میں شادی کو جہاں ایک سنسکار مانا جاتا ہے، وہیں اسلام مذہب میں اسے ایک کنٹریکٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔ عیسائیوں اور پارسیوں کے رسم و رواج بھی الگ الگ ہیں۔ لہٰذا وسیع ثقافتی تنوع کے سبب نجی معاملوں میںایک رائے قائم کرنا عملی طور پر بے حد مشکل ہے۔ دوسرا مسئلہ ہے کہ اقلیت خاص طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی یونیفارم سول کوڈ کو اس کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بڑی آبادی کے مطالبہ کو نظرا نداز کر کے کوئی قانون عمل میں نہیں لایا جاسکتا ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یونیفارم سول کوڈ کو نافذ کرنے کا فیصلہ لے بھی لیا جاتا ہے تو اسے جامع شکل دینا قطعی آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے عدالت کو نجی معاملوں سے منسلک تمام پہلوئوں پر غور کرنا ہوگا۔ شادی، طلاق، دوبارہ شادی وغیرہ جیسے مسائل پر کسی مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر قانون بنانا آسان نہیں ہوگا۔ صرف شریعہ قانون1937 ہی نہیں بلکہ ہندو میرج ایکٹ 1955، کرسچین میرج ایکٹ 1872، پارسی میرج اینڈ ڈائیوورس ایکٹ1936 میں بھی اصلاح کی ضرورت ہوگی۔ صرف اتنا ہی نہیں، مشکل یہ بھی ہے کہ ملک کے الگ الگ حصوں میں ایک ہی مذہب کے لوگوں کے رسم و رواج الگ الگ ہیں۔اس لیے خصوصاً مسلمانوں کو بہت سنبھل کر قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت نے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ووٹ بینک کا نہیں رہ گیا ہے۔ یونیفارم سول کوڈ صرف مسلمانو ں کا مسئلہ نہیں ہے اور ایوان اقتدار تک یہ پیغام قطعی طور پر جانا بھی نہیں چاہیے کہ اس سے صرف مسلمانوں کے شرعی قوانین ہی متاثر ہوں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بشمول اکثریتی فرقہ ملک کے تمام مذاہب اور نسلوں کے لوگوں کے الگ الگ پرسنل لاز اور رسم و رواج ہیں۔ اس کوڈ کے نفاذ سے یہ تمام قوانین اور رسم و رواج متاثر ہوں گے۔ ملک کے آئین و قوانین کے تحت اپنے پرسنل لاز کا ہر ممکن دفاع فرض اولین ہے لیکن بلاوجہ کی بیان بازیوں اور جلسے جلوسوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے، سوائے اس کے کہ حکمرانوں کے خفیہ ایجنڈا کو تقویت ملے گی۔ حکمرانوں کو بھی ایسی کوششوں سے بچنے کی سخت ضرورت ہے جو سماج کو صف بندی کی راہ پر لے جائیں اور سماجی ہم آہنگی کے لیے چیلنج پیدا کر یں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS