عبدالماجد نظامی
ان دنوں جمعیت علما ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کی اس تقریر پر واویلا مچا ہوا ہے جس میں انہوں نے اسلام کے مقدس اصولوں کا دفاع کیا تھا اور واضح کیا تھا کہ کس طرح موجودہ حکومت اور اس کی نظریاتی رہنما تنظیم کی شہہ پر اسلام اور مسلمانوں پر مسلسل سخت حملے کئے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں بسنے والے ہر مسلمان کا یہ دستوری حق ہے کہ اگر اس کے دین و ایمان اور فکر و عقیدہ پر بے جا حملے کئے جائیں تو وہ ان کا دفاع کرے اور جو شر پسند طاقتیں ان حملوں کے پیچھے ہوں ان کا غیر انسانی اور غیر اخلاقی چہرہ ملک کے عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ اسلام کا سرسری مطالعہ کرنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ جہاد کا کیا مفہوم ہے، اس کے کیسے پاکیزہ شرائط ہیں اور ان کے استعمال کا حق کس کو اور کن حالات میں ہے۔
مولانا مدنی نے مختصر طور پر اپنی تقریر میں روشنی ڈالی ہے لیکن ملک کا خواندہ طبقہ جو حقیقت پسندی پر قائم ہے اور اس نے اب تک اسلام کے مبادی کا مطالعہ نہیں کیا ہے اس کو بھی چاہئے کہ وہ سنجیدہ اور علمی مطالعہ اسلام کا کرے اور علمی و فکری دیانت داری کی روشنی میں یہ سمجھے کہ جہاد، نکاح، طلاق اور حلال و حرام کے کیسے اعلی اصول اسلام میں طے کئے گئے ہیں۔ انہیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ لو جہاد یا بھومی جہاد جیسے اصطلاحات کا ہندوتوادی تنظیموں کے ذریعہ استعمال کیا جانا اور ان کے ہمنوا میڈیا گھرانوں کے ہاتھوں ان کی غیر ذمہ دارانہ ترویج ایک بدترین دروغ گوئی ہی نہیں بلکہ اپنے پیشہ اور اخلاقیات عمل کے ساتھ شدید دھوکہ ہے۔ ایسے اسلام اور مسلمان مخالف پروپیگنڈوں سے اسلاموفوبیا کا جو مرض معاشرہ میں عام ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
آر ایس ایس جو خود کو ایک ثقافتی تنظیم کہتی ہے اور مذہب و دھرم کے تحفظ کا راگ الاپتے نہیں تھکتی کیا وہ بتلا سکتی ہے کہ اس کی ثقافت میں ایسی باتوں کے لئے دھرم کے کس اصول سے جواز مل جاتا ہے۔ ہندو دھرم کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ اس میں وحدت و انسانیت کے رموز نظر آتے ہیں۔ اس دھرم میں بے پناہ لچک موجود ہے اور دیگر تہذیبوں اور ادیان کے ساتھ صلح و آشتی کا سلوک اس نے ہمیشہ برتا ہے۔ اس لئے یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا کہ سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیموں نے اسلام اور مسلمان کے خلاف آج نفرت کا جو ماحول قائم کیا ہے اس کے لئے ہندو دھرم ذمہ دار ہے۔ ایسا ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک کے مسلمانوں نے کبھی بھی کسی مذہب اور دھرم کے بنیادی اصولوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کیونکہ اسلامی عقیدہ و فکر اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ کسی کے دین و مذہب یا اس کی مقدس شخصیات پر کسی بھی قسم کا معمولی بے جا تبصرہ نہ کیا جائے۔
اسلامی ریاستوں نے اپنی تاریخ کے بدترین ادوار میں بھی کبھی ایسا نہیں کیا کہ انہوں نے دیگر مذاہب و ادیان کے مقدسات کے ساتھ بدسلوکی یا بدزبانی کی ہو۔ لیکن آزاد ہندوستان میں جہاں اقلیتوں کو ان کے دین و مذہب کی آزادی دستور میں دی گئی ہے اور ہر طرح کا تحفظ انہیں فراہم کیا گیا ہے اسی ملک میں وہ ارباب اقتدار تک دستور کے ان رہنما اصول کی پابندی نہیں کرتے جن پر عمل پیرا ہونے کا انہوں نے صرف وعدہ ہی نہیں کیا تھا بلکہ حلف اٹھاکر عوام کے سامنے یہ ذمہ داری قبول کی تھی کہ وہ کسی بھی شہری کے ساتھ ذات، دھرم اور جنس کی بنیاد پر بھید بھا نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود ان میں ادنی درجہ کا دستوری شعور باقی نہیں رہتا اور ان تمام فاسد نظریات کی بنیاد پر ایک خاص طبقہ اور اس کے دین و ایمان کو نشانہ بناتے ہیں جو اس ملک میں اقلیت میں ہے لیکن اس کو دستور نے یکساں درجہ کا شہری قرار دیا ہے۔
آخر کس منطق کے تحت ہندوستان کے مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ ان کی عبادتگاہیں، ان کے تعلیمی ادارے، ان کا دین، ان کی شریعت یہاں تک کہ ان کی خواتین کی عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ ریل میں سفر کر رہا ہو یا ٹیکسی چلا کر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پال رہا ہو یا پھر کوئی ٹوپی کرتا پہنے بچہ عید کی خریداری کرنے بازار گیا ہو یا پھر ردائے عصمت میں ملبوس کوئی مسلم خاتون کہیں جا رہی ہو۔ کوئی بھی آج کے ہندوستان میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتا۔ کوئی بھلا خود کو کیسے محفوظ تصور کرے گا جب اس ملک کا وزیر اعظم اور کئی ریاستوں کے وزرا اعلی جو ایک ہی نظریہ کے تربیت یافتہ ہیں وہ سب مل کر اپنے عہدوں کی بلندی تک لحاظ نہیں کر رہے ہیں؟ ایسے لیڈروں کو جب تمام پیشہ ورانہ اخلاقیات سے عاری میڈیا کے لوگ دیکھتے ہیں تو وہ بھی ان کی ہی زہر آلود باتوں کو سماج میں ہر قسم کے وسائل کی مدد سے پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔
حالانکہ ان کی ذمہ داری تھی ایسے نفرت آمیز اور زہر آلود بیانات کو یا تو پھیلاتے نہیں یا کم از کم ان کے خلاف اپنا احتجاج درج کرتے۔ عوام کو بتلاتے کہ یہ لیڈران دستور کے کن شقوں کی پامالی کر رہے ہیں۔ برادران ملک و وطن کو حقیقت سے باخبر کیا جاتا اور انہیں نفرت کے بجائے محبت و آشتی کے اصول سکھائے جاتے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ کیا یہ میڈیا کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اسلام کے حساس مسائل مثلا نکاح، طلاق، حلال و حرام اور جہاد وغیرہ کو اسلام کے معتبر علما سے سمجھنے کی کوشش کرتا اور ملک کے عوام کو گمراہ ہونے سے بچاتا؟ غور کا مقام یہ ہے کہ جب مولانا مدنی نے ارباب اقتدار اور میڈیا کی غیر اخلاقی حرکتوں سے تنگ آکر آخر کار مسلمانان ہند کے جذبات کی عکاسی کر دی تو یہی میڈیا دوبارہ اپنی غیر پیشہ ورانہ حرکتوں پر آمادہ ہوگیا اور بجائے اس کے کہ وہ اس بات کو قبول کرتا کہ یقینا اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے ناطہ اس کو پورا حق ہے کہ اس کے دینی و ثقافتی رموز کو تحفظ ملے جیسا کہ دستور ہند نے کہا ہے اور اس کو اپنی ماضی کی غلطیوں پر احساس ندامت ہوتا۔ اس کے برعکس مولانا محمود مدنی کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس پر بحث شروع ہوئی اور مسلمانوں کو یہ محسوس ہوا کہ اس ملک میں ایک سنجیدہ طبقہ موجود ہے جو اسلاموفوبیا کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ ارباب اقتدار کو چاہئے کہ وہ اپنی روش کو بدلیں اور دستوری اصولوں پر پابندی کو یقینی بنائیں۔ وہ اپنی ان ذمہ داریوں کی ادائیگی پر توجہ مرکوز کریں جن کے لئے ان کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ کسی بھی طبقہ کے دین و مذہب پر غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر دستور کی توہین نہ کریں۔ انہیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو اسلامی مسلمات کے دفاع کا حق دستور نے خود عطا کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی بھی جمیعت علما ہند کے پلیٹ فارم سے اپنی وہی ذمہ داری ادا کر رہے تھے۔ اس لئے انہیں زد و کوب کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلہ کا حل اس امر میں پوشیدہ ہے کہ مسلمانان ہند کو برابر کا شہری مان کر ان کے تمام مذہبی و ثقافتی حقوق کی پابندی کی جائے اور ان کو دوسرے یا تیسرے درجہ کا شہری بنانے کی چال کو ختم کیا جائے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor.nizami@gmail.com






