آزادی کا امرت مہوتسو مناتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی لال قلعہ کی فصیل سے خواتین کی عظمت کا قصیدہ پڑھتے ہوئے ان کے احترام کا درس دے رہے تھے تودوسری طرف آبروریزی اور قتل جیسے سنگین جرائم میں سزا کاٹ رہے مجرموں کو رہا کرکے جیل کے باہر ان کااستقبال اور گل پوشی کی جارہی تھی۔یہ واقعہ کہیں اور نہیں وزیراعظم نریندرمو دی کے گھر گجرات میں پیش آیا۔جہاں کی بھارتیہ جنتاپارٹی حکومت نے 15 اگست 2022 کو 2002 کے گجرات فسادات کے دوران 5 ماہ کی حاملہ خاتون بلقیس بانو کی اجتماعی آبروریزی کرنے والے 11 مجرموں کو معاف کر دیا اور انہیں قبل از وقت رہائی کی پالیسی کے تحت رہا کر دیا۔ یہ سب 2004 سے جیل میں تھے۔ مہاراشٹر میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 2008 میں ان مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
گجرات حکومت کے اس شرم ناک فیصلہ نے پورے ملک کو ششدر کردیا ہے۔ ملک کے انصاف پسندوں اور نظام قانون و عدل پر یقین رکھنے والے شہریوں کو اس پر یقین کرنا مشکل ہورہاہے کہ کوئی حکومت اجتماعی آبروریزی اور قتل جیسے سنگین جرائم کا وحشیانہ ارتکاب کرنے والے مجرموں کو بھی رہاکرسکتی ہے۔
گجرات حکومت کے اس فیصلہ سے متاثرہ بلقیس بانو اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ پورا ملک صدمہ میں ہے۔بلقیس بانو کے شوہریعقوب رسول کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ حکومت نے ان لوگوں کو کیسے چھوڑ دیا جنہوں نے بلقیس کا گینگ ریپ کیا، ان کی 3 سالہ بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیا، اس کے خاندان کے ایک درجن سے زائد افراد کو قتل کردیا۔اس فیصلے نے بلقیس کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ مجرموں کی رہائی کے فیصلہ کاعلم ہونے کے بعد بلقیس کو مایوسی ہوئی ہے، وہ کسی سے بات نہیں کررہی ہے اور نہ کچھ کہنے کی حالت میں ہے۔
2002میں فسادات کی آگ میں جل رہے گجرات میں اپنی جان بچانے کیلئے مظلو م بلقیس بانو اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ پناہ کی تلاش میں گاؤں سے بھاگ رہی تھی تو اس کے پورے خاندان کو مشتعل ہجوم نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت 21 سالہ بلقیس بانو پانچ ماہ کی حاملہ تھی جب 11 افراد نے اس کی اجتماعی بے حرمتی کی اوراس کی 3سالہ معصوم بچی صالحہ کے ساتھ اس کے درجن بھر رشتہ داروں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔بلقیس بانو نے اپنے ساتھ ہونے والے سنگین جرائم اور مظالم کے باوجود مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کیلئے ایک طویل جنگ لڑی۔بلقیس کے قومی انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مداخلت کی۔ بلقیس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں، اس کے خاندان نے اس دوران15بار گھر بدلا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کی ہدایت پر مقدمے کی سماعت گجرات سے باہر مہاراشٹر منتقل کر دی گئی۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کو 2017 میں بمبئی ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا اور 2019 میں سپریم کورٹ نے بلقیس کو 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا حکم بھی دیا تھا۔اس وقت بلقیس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے اس کے دکھ و درد کو سمجھا ہے اور 2002 کے فسادات میں کھوئے ہوئے اس کے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کااحساس کیا ہے، اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے۔لیکن حکومت اپنے فرض کی ادائیگی میں کس حد تک کامیاب رہی وہ 11مجرموں کی رہائی کے فیصلے سے ہی سمجھ میں آرہاہے۔بلقیس کے مجرموں کے ماتھے پر تلک اور گلے میں پھولوں کا ہار دیکھ کر صرف بلقیس بانو کوہی نہیںپورے ملک کے انصاف پسندوں کو شکست کا احساس ہورہاہے۔
مجرموں میں سے ایک رادھے شیام شاہ نے 15 سال اور 4 ماہ کی مدت گزارنے کے بعد جیل سے رہائی کیلئے پہلے گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت نے اس کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ ان کی سزا کی معافی کا فیصلہ کرنے کے لیے مناسب حکومت مہاراشٹر ہے کیوں کہ مہاراشٹر کی ہی خصوصی عدالت نے مجرموں کو یہ سزا سنائی تھی۔اس کے بعد رادھے شیام نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔اس کی درخواست پر13 مئی 2022 کے اپنے حکم میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو اس درخواست کی جانچ کیلئے ہدایت دی۔اس کے بعد گجرات حکومت نے سزا کی معافی کیلئے پینل تشکیل دیا اور اس پینل نے 11 مجرموں کی معافی پر اتفاق کیا۔ قانون کے ماہرین سنگین جرائم کے مقدمے میں 11 مجرموں کی رہائی پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ ریاستی حکومت ایک سزاپارہے مجرم کی درخواست پر تمام 11 مجرموں کو کیسے رہا کر سکتی ہے۔
یہ حیرانی اور شکست کا صدمہ اس لیے بھی زیادہ اذیت ناک ہے کہ مجرموں کی رہائی کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں لیاگیا جب پورا ملک آزادی کاامرت مہوتسو منارہاہے، وزیراعظم لال قلعہ کی فصیل سے خواتین کی عزت و حرمت اور وقار کے تحفظ کادرس دے رہے ہوں اور ان کی حکومت ’ بیٹی بچائو- بیٹی پڑھائو ‘، ’ ناری شکتی کا سمان ‘جیسے نعرے کے ساتھ ’ماتری شکتی مہاکمبھ ‘ بھی لگارہی ہو۔
[email protected]
انصاف پسندوں کوشکست
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS