پون دُگّل
پیر کے روز جو سائبر واقعہ پیش آیا ہے، وہ بہت بڑا ہے۔ فیس بک، وہاٹس ایپ، انسٹا جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 6گھنٹے تک لوگوں کو دستیاب نہیں تھے، تو یہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے۔ یہ اشارہ ہے سائبر سیکورٹی میں نقب کا۔ جن کمپنیوں کی سروس میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے، وہ بڑی کمپنیاں ہیں، ان کی سروس کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنے سیکورٹی کے لیے بہت بڑے پیمانہ پر کام کرتی ہیں، تاکہ ان کا پلیٹ فارم محفوظ رہ سکے۔ لیکن جب اتنی بڑی کمپنیوں کی سیکورٹی میں نقب لگ سکتی ہے تو پھر پوری دنیا کے صارفین کا فکرمند ہونا لازمی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا اور یہ جو واقعہ ہوا ہے، یہ واضح اشارہ کرتا ہے کہ آنے والے وقت میں اس طرح کے اور بھی زیادہ واقعات ہوں گے۔ سائبر کرائم کا گولڈ پیریڈ آچکا ہے۔
کووڈ-19آنے کے بعد سائبر سیکورٹی میں نقب ایک عام بات ہونے والی ہے۔ میں نے حال ہی میں سائبر سیکورٹی سے متعلق ایک کتاب لکھی ہے، جس میں سائبر سیکٹر پر کووڈ-19کے اثر ات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ میں نے پایا ہے کہ جب ہماری حکومتیں کووڈ-19سے ابھریں گی، تب ایک نئے سائبر کے دور میں قدم رکھیں گی۔ ایک نیا سائبر سسٹم قائم ہوگا۔ سائبر سیکورٹی میں نقب اور سائبر کرائم ہماری زندگی کے عام واقعات میں شمار ہوجائیں گے۔ جو حالیہ واقعہ پیش آیا ہے، وہ اسی نئے سسٹم کی سمت میں ایک کڑی ہے۔ اس سے ہمیں کچھ سبق حاصل ہوتے ہیں۔ دیکھئے کمپنیوں پر اعتماد مت کیجیے، کمپنیاں پوری بات نہیں بتائیں گی۔ ابھی تک واضح طور پر کمپنیوں کی طرف سے یہ بات سامنے نہیں آئی ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج سائبر سیکورٹی میں نقب کے لیے اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹر، دونوں لگے ہوئے ہیں اور زیادہ تر ایکٹر ڈارک ویب کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنی پہچان پوشیدہ رکھ سکیں اور بعد میں بھی ایسی غلط سرگرمیوں کو انجام دے سکیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلتا۔ حالیہ واقعہ سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ صارفین کو اپنی سیکورٹی پر زیادہ توجہ دینی پڑے گی۔
امریکہ اکتوبر ماہ کو ہر سال ’نیشنل سائبر سیکورٹی بیداری ماہ‘ (National Cyber Security Awareness Month) کے طور پر مناتا ہے، ہم بھی ایسا کچھ کرسکتے ہیں، لیکن ہمیں اپنی کوششوں کو اور بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہم سائبر کے سمندر میں اترچکے ہیں، یہاں سے اب پیچھے نہیں جاسکتے۔ اگر ہم اس میں پوری طرح سے تیرنا نہیں جانیں گے تو خطرہ مسلسل قائم رہے گا۔ ہمیں ڈیجیٹل مہارت(Digital Skills)پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا، ان پلیٹ فارم پر آنکھیںبند کرکے ہمیں اعتماد نہیں کرنا ہے۔ کئی لوگ سیکنڈ پلیٹ فارم پر پوری طرح سے منحصر ہوجاتے ہیں اور جب ان پلیٹ فارم پر سروس میں کچھ دیر کے لیے بھی رکاوٹ آجاتی ہے تو بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تیسری بات، اپنا بیک اپ تیار رکھنا بہت ضروری ہے۔ ہم یہ امید کریں کہ 24گھنٹے ہر پل یہ پلیٹ فارم چلتا رہے، تو یہ ممکن نہیں ہے۔ چوتھی بات، معاملات میں تفتیش کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ تفتیش کہاں ہوگی؟ مختلف ممالک اپنی اپنی سطح پر تفتیش کرسکتے ہیں۔ یہ کام امریکہ کرسکتا ہے۔ لیکن ابھی تک جو کمپنیاں ہیں، وہ کچھ چیزوں کو پوشیدہ رکھ رہی ہیں۔ پوری بات بتا نہیں رہی ہیں، کیوں کہ صحیح بات جب لوگوں کو معلوم ہوگی، تو لوگوں کے ذہن و دل میں خوف پیدا ہوجائے گا۔ توضروری ہے کہ ہم اس نئے دور کی نئی شکل کو سمجھیں اور ذہنی طور پر تیار ہوجائیں۔ ہمیں ایسی مشکلات سے زیادہ گھبرانا نہیں ہے، انہیں اپنی زندگی کا ایک حصہ بناکر رکھنا ہے۔
ایسے حملوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ تبھی تو پرائیویٹ سیکٹر پر حملہ ہوا ہے۔ سائبر کریمنلس نے یہ حملہ کرکے دکھا دیا ہے کہ وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ وہ ہماری آپ کی زندگی کے ہر پہلو کو ڈیجیٹل طور پر منفی طور سے متاثر کرسکتے ہیں۔ آج ضرورت بیداری کی ہے۔ نئے بنتے حالات کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ آج ان بڑی کمپنیوں کے ساتھ برا ہوا ہے تو کل ہمارے ساتھ بھی برا ہوسکتا ہے اور اگر ایسا ہمارے ساتھ ہوا، تو کیا ہم تیار ہیں؟
امریکہ اکتوبر ماہ کو ہر سال ’نیشنل سائبر سیکورٹی بیداری ماہ‘ (National Cyber Security Awareness Month) کے طور پر مناتا ہے، ہم بھی ایسا کچھ کرسکتے ہیں، لیکن ہمیں اپنی کوششوں کو اور بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہم سائبر کے سمندر میں اترچکے ہیں، یہاں سے اب پیچھے نہیں جاسکتے۔ اگر ہم اس میں پوری طرح سے تیرنا نہیں جانیں گے تو خطرہ مسلسل قائم رہے گا۔ ہمیں ڈیجیٹل مہارت(Digital Skills)پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سائبر قانون کے ماہر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)