اترپردیش اسمبلی الیکشن جیسے جیسے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ پولنگ کا تناسب کم ہورہا ہے جو سبھی کے لیے فکرمندی کا باعث ہے۔ملک کی سب سے بڑی ریاست کے الیکشن کا جتنا شور تھا اورجس طرح پورے ملک کی نگاہیں اس پر مرکوز تھیں، ووٹنگ میں وہ بات نظر نہیں آرہی ہے۔ابھی تک 5مراحل کے انتخابات ہوچکے ہیں اور2مراحل کے باقی ہیں، جو 3 اور7 مارچ کو ہوں گے اور 10مارچ کو دیگر 4ریاستوں کے ساتھ اترپردیش میں بھی ووٹوں کی گنتی ہوجائے گی۔دیکھا جائے توماضی کے مقابلہ میں ہر مرحلہ میں ووٹنگ کے تناسب میں گراوٹ آرہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گراوٹ 2017 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلہ میں ایک فیصد ہی رہتی ہے، اس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ الیکشن کمیشن اورانتظامیہ کی طرف سے ووٹر بیداری مہم اورسیاسی لیڈران کی طرف سے زیادہ سے زیادہ ووٹنگ کی اپیل کے باوجود ووٹنگ کا تناسب بڑھنے کے بجائے کم ہو رہا ہے۔ پولنگ کا تناسب ایک خاص جگہ پر منجمد ہوگیا ہے۔جو نہ بڑھ رہا ہے اورنہ گھٹ رہا ہے۔پہلے اوردوسرے مرحلہ میں بالترتیب 62اور 64فیصد پولنگ ہوئی تو تیسرے اورچوتھے مرحلہ میں 61فیصد،پانچویں مرحلہ میںتوصرف 57فیصد ہی ووٹنگ کا تناسب رہا۔اس رجحان سے پتہ چلتا ہے کہ رائے دہندگان میں نہ تو جوش وخروش ہے اورنہ الیکشن میں ان کی زیادہ دلچسپی ہے۔ورنہ اس طرح کی صورت حال نہیں ہوتی۔رائے دہندگان کا یہ رجحان سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کی دھڑکنیں بڑھا رہا ہے۔ وہ ہارجیت کے اندازے نہیں لگاپارہے ہیں۔وہ نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ عوام کس کو ووٹ دے رہے ہیں۔ان کی حمایت اپوزیشن کو حاصل ہے یا حکمراں جماعت کو۔
اترپردیش اسمبلی انتخابات میں اس بار ووٹنگ کا جو رجحان رہا، کم وبیش 2012 کے اسمبلی انتخابات میں وہی تھا۔حسب سابق اس بار بھی شہری علاقوں میں پولنگ کا تناسب زیادہ رہا اور دیہی علاقوں میں کم۔پولنگ کے تناسب میں مجموعی گراوٹ شہری علاقوں کی وجہ سے آرہی ہے۔شہری علاقوں میں پولنگ مراکز پر رائے دہندگان کی لائنیں چھوٹی ہوتی ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں لمبی لمبی لائنیں صبح سے شام تک دیکھی جاتی ہیں۔لکھنؤ، نوئیڈا، غازی آباد، پریاگ راج،امیٹھی اوراجودھیا جیسے شہری علاقوں کے حلقوں میں پولنگ کے تناسب کو دیکھیں توآپ کو سخت مایوسی ہوگی۔جہاں لوگ الیکشن کے دن یا تو گھروں سے نکلے نہیں یا انہوں نے کہیں اورجاکر اس دن کی چھٹی منائی۔ایسی بات نہیں ہے کہ پوری ریاست میں 65فیصد سے زیادہ پولنگ نہیں ہوئی، کہیں کہیں 71 اور 74فیصد تک بھی پولنگ ہوئی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 50اور40 فیصد سے کم بھی پولنگ ہوئی۔ابھی تک زیادہ تر حلقوں میں 60فیصدسے کم پولنگ ہوئی جس کی وجہ سے مجموعی تناسب کسی بھی مرحلہ میں 64فیصد سے نہیں بڑھ رہاہے۔ پولنگ کایہی رجحان اگر اگلے 2مراحل میں رہا تو مجموعی تناسب شاید ہی آگے بڑھ سکے۔ حالانکہ انتظامیہ پوری کوشش کررہی ہے کہ لوگ گھروں سے نکل کر پولنگ مراکز پر پہنچیں اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔لیکن خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں۔
ہندی بیلٹ کی ریاستوں میں پولنگ ہرالیکشن میں ایسی ہی رہتی ہے۔ بڑی مشکل سے 60سے 65فیصد تک پہنچ پاتی ہے۔جبکہ دیگر ریاستوں میں 70فیصد سے زیادہ کہیں کہیں 80فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ابھی الیکشن 5ریاستوںمیں ہورہے ہیں۔ اترپردیش اوراتراکھنڈ کو چھوڑ کر کسی بھی ریاست میں پولنگ کا تناسب 70فیصد سے کم نہیں رہا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ حق رائے دہی کے استعمال کے معاملے میں ہندی بیلٹ کی ریاستوں کے رائے دہندگان پیچھے ہیں۔ہوسکتاہے کہ الیکشن اورووٹنگ میں رائے دہندگان کی زیادہ دلچسپی نہ ہو یا وہ سیاسی پارٹیوں سے مایوس اورناراض ہوں۔ اسی لیے کسی کے حق میں ووٹ نہیں ڈالتے۔وجہ جو بھی ہولوگوں کا یہ رجحان اورسوچ غلط ہے کیونکہ کم ووٹوں میں ہی پارٹیوں کی ہارجیت اورحکومت کا فیصلہ ہوجائے گا۔اوراگر وہ پارٹی اقتدار میں آگئی جسے وہ نہیں چاہتے تو ووٹ نہ دینے والے 5برسوں تک کف افسوس ملتے رہیں گے۔ اس لیے ہرحال میں حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اکثریت کی پسند کی حکومت بنے گی اوردوسرافائدہ یہ ہوگا کہ ووٹ کی بدولت لوگ منتخب نمائندوں، پارٹیوں اورسرکار پر اپنے مسائل حل کرانے کے لیے دبائو ڈال سکیں گے اور اگلی بار ان کے سامنے شکست دینے اورسبق سکھانے کا موقع رہے گا۔
[email protected]
پولنگ کے تناسب میں گراوٹ کارجحان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS