پروفیسر عتیق احمد فاروقی
2025 اگست 2025 کی شروعات میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر کے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئی کھلبلی پیدا کر دی۔ ابتدائی طور پر ہندوستانی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس لگایا گیا اور بعد ازاں روس کے ذریعے تیل خریدنے پر مزید 25 فیصد جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں مجموعی طور پر ہندوستان پر 50 فیصد ٹیرف کا بوجھ ڈالنے کی تیاری ہوئی، جس نے گزشتہ دو دہائیوں میں پروان چڑھتے ہند-امریکہ تعلقات کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ یہ اعلان نہ صرف معاشی محاذ پر ایک دھچکا تھا بلکہ اس نے خارجہ پالیسی کے ماہرین کو بھی حیران کر دیا کہ کیا واقعی واشنگٹن اپنی دو دہائیوں پرانی حکمت عملی سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔
امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات حالیہ برسوں میں جس حد تک مضبوط ہوئے تھے، وہ پانچ امریکی صدور کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ تھے۔ صدر بل کلنٹن کا 2000 کا تاریخی دورۂ ہند اس تعلق کی نئی پہچان تھا، جس نے دہلی اور واشنگٹن کے بیچ اعتماد کی ایک نئی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد 2008 میں صدر جارج ڈبلیو بش نے غیر فوجی جوہری معاہدے کے ذریعے اس رشتے کو اور گہرا کیا، جو دونوں ممالک کے تعلقات میں ’’گیم چینجر‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ صدر براک اوباما نے اپنے دونوں دوروں میں اس دوطرفہ رشتے کو 21ویں صدی کی فیصلہ کن شراکت داری قرار دیا اور دفاع، سائنس، تعلیم اور ٹیکنالوجی میں تعاون بڑھایا۔ حتیٰ کہ صدر ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار میں بھی ہاؤڈی مودی ریلی (ہوسٹن) اور احمد آباد میں ٹرمپ کا پروگرام گرم جوشی کی مثالیں سمجھی گئیں۔ مگر اب اپنی دوسری مدت کار میں وہ ایک بالکل مختلف رویہ اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ تبدیلی محض انتخابی سیاست کا نتیجہ ہے یا امریکی خارجہ پالیسی کی سمت میں ایک بنیادی موڑ؟
سی این این کے معروف صحافی فرید زکریا کے مطابق صدر ٹرمپ کے اچانک اور بے سبب فیصلے نہ صرف سابقہ پالیسیوں سے انحراف ہیں بلکہ یہ گزشتہ پانچ حکومتوں کے تحت اپنائی گئی حکمت عملی کو بھی الٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو یہ ٹرمپ کی صدارت کی سب سے بڑی تزویراتی بھول ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ ہندوستان کو ناراض کرنا صرف تجارتی نقصان نہیں بلکہ چین جیسے حریف ملک کے لیے ایک موقع پیدا کرنا بھی ہے۔ اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ دونوں ممالک کی معیشتیں ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ سال 2024 میں دونوں ممالک کے درمیان 130 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوئی۔ ہندوستان قالین، کپڑے، پوشاک، فرنیچر، برتن اور زیورات سمیت متعدد مصنوعات امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔ ان صنعتوں پر لاکھوں ہندوستانی خاندانوں کی روزی روٹی منحصر ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق قالین کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ ہندوستان اپنا قریب 60 فیصد قالین امریکہ کو ہی برآمد کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکہ میں بے شمار چھوٹے اور درمیانے درجے کے بزنس ان ہی ہندوستانی مصنوعات پر منحصر ہیں، اس لیے یہ ٹیرف امریکی صارفین کو بھی براہ راست متاثر کرے گا۔یہاں تک کہ امریکہ کی دواسازی کی بڑی ضرورت بھی ہندوستان سے پوری ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ جنرک دوائیں ہندوستان ہی فراہم کرتا ہے، جن کی بدولت امریکی عوام کو سستی طبی سہولیات میسر آتی ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ ان دواؤں پر بھی ٹیرف لگانے کی تیاری میں ہے، جو 150 سے 250 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے اثرات دونوں ملکوں کی معیشت پر دیرپا ہوں گے اور صحت عامہ کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ امریکہ کی اندرونی سیاسی فضا میں اس پر بھی بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا یہ فیصلہ دراصل امریکی عوام پر ایک نیا بوجھ ڈالنے کے مترادف نہیں ہوگا۔اگرچہ ٹرمپ کا خیال ہے کہ ہندوستان امریکی ٹیرف سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوگا کیونکہ وہ اپنی جی ڈی پی کا محض 20 فیصد درآمد کرتا ہے اور اس کے پاس ایک وسیع گھریلو منڈی موجود ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نقصان کا اثر دونوں طرف محسوس کیا جائے گا۔ ہندوستان کی ترقی کی رفتار میں کمی اور امریکہ میں مہنگائی میں اضافہ دونوں ملکوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس تجارتی کشیدگی کو وقت پر حل نہ کیا گیا تو خطے میں سرمایہ کاری کے بہاؤ پر بھی منفی اثر پڑے گا اور سپلائی چین میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تجارتی اختلافات دیکھے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ذہنی اثاثہ حقوق، زرعی سبسڈی اور بازار تک رسائی جیسے مسائل پر ٹکراؤ سامنے آتے رہے ہیں۔ امریکی کمپنیوں کی شکایت رہی ہے کہ ہندوستان کی پالیسیوں کی وجہ سے موٹر سائیکل، طبی آلات اور دیگر مصنوعات اس کے بازار میں آسانی سے داخل نہیں ہو پاتیں۔ تاہم ماضی کے امریکی صدور نے ہمیشہ عوامی سطح پر سخت بیانات سے گریز کیا۔ ٹرمپ نے یہ روایت بدلتے ہوئے کھلے عام ہندوستان پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا، جسے نئی دہلی میں طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا اور شاید مستقبل کی سفارت کاری پر اس کے اثرات مرتب ہوں۔ٹرمپ کے قریبی مشیر پیٹر نوارو نے بھی فائنانشیل ٹائمز میں لکھے اپنے مضمون میں ہندوستان کو روسی تیل کی خریداری اور اس کی عالمی فروخت کے ذریعے پابندیوں کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق اس سے ہونے والا منافع نہ صرف ہندوستانی صنعت کاروں بلکہ بالآخر روسی صدر ولادیمیر پوتن کے خزانے تک پہنچ رہا ہے۔ یہ مؤقف ٹرمپ کے اس بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک امریکی کھلے پن کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کو مقدم رکھے۔
یقیناٹرمپ کی نئی پالیسی سے ہندوستان کے لیے مشکلات کھڑی ہوں گی، مگر اس سے کہیں زیادہ نقصان اعتماد کو پہنچے گا۔ تجارت وقتی اتار چڑھاؤ کا شکار ہوسکتی ہے لیکن ایک بار اگر اعتماد ٹوٹ گیا تو اس کی بحالی آسان نہیں ہوگی۔ امریکہ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات صرف تجارت تک محدود نہیں بلکہ اس کے طویل مدتی تزویراتی مفادات سے بھی جڑے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے یہی سوچ امریکی پالیسی کا محور رہی ہے کہ ہندوستان کو ایشیا میں ایک متوازن طاقت کے طور پر ساتھ رکھا جائے تاکہ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو متوازن کیا جا سکے۔ لیکن موجودہ رجحانات اس سوچ کو زائل کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور یہ صورت حال خطے میں طاقت کے توازن کو بدل سکتی ہے۔اگر ٹرمپ نے محض گھریلو سیاسی فائدے یا وقتی دباؤ میں آ کر یہ پالیسیاں اپنائی ہیں تو یہ ان کے اپنے ملک کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ ممکن ہے کہ امریکی منڈی میں مہنگائی بڑھنے یا اقتصادی سست روی کی صورت میں یہ ٹیرف واپس لینا پڑے، لیکن اس دوران تعلقات پر لگنے والا زخم دیرپا ہو گا۔ واشنگٹن اور دہلی دونوں کو اب ایک نئے مکالمے کی ضرورت ہے جو محض اقتصادی مفادات پر نہیں بلکہ باہمی احترام اور طویل مدتی تعاون پر مبنی ہو۔
ہندوستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تجارتی پالیسیوں کو مزید شفاف اور غیر پیچیدہ بنائے تاکہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا اعتماد بحال ہو۔ نئی دہلی اگر اس موقع کو دانشمندی سے استعمال کرے تو وہ اپنی صنعتوں کو جدید بنا کر عالمی معیار تک پہنچاسکتی ہے اور امریکی منڈی کے علاوہ یوروپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بھی اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔ یہ بحران دراصل ایک موقع بھی ہے کہ ہندوستان اپنی معیشت کو زیادہ متنوع اور خود انحصار بنائے۔امریکہ اور ہندوستان دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقتی اختلافات کو طویل المدتی تعلقات پر غالب نہ آنے دیں۔ یہ تعلق صرف اقتصادی نہیں بلکہ تزویراتی، ثقافتی اور انسانی سطح پر بھی ہے۔ اگر اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے تو نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورا خطہ اس کے منفی اثرات بھگتے گا۔ دنیا کو اس وقت اشتعال انگیز بیان بازی نہیں بلکہ تعاون اور شراکت داری کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو دونوں ممالک کو مستقبل میں امن، ترقی اور خوش حالی کی طرف لے جا سکتا ہے اور جو عالمی سیاست میں ایک متوازن اور مستحکم نظام قائم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔
atiqfaruqui001@gmail.com