آئین کی 75ویں سالگرہ اپنے آپ میں کافی اہمیت کی حامل ہے اور اس موقع پر لوک سبھا میں 2روزہ بحث کا انعقاد بہترین موقع اور پلیٹ فارم تھا کہ ہم جائزہ لیتے کہ ان 75سالوں میں ہم نے کیا کھویا اورکیا پایا ؟ کیا صحیح معنوں میں ہم آئین پر چلتے رہے اورضرورت کے مطابق اس میں ترمیم بھی کرتے رہے ؟کیا آئین کے مطابق ملک کے سبھی طبقات اورمذہبی کمیونٹیوں کو حقوق حاصل ہورہے ہیں ؟کسی کے ساتھ بھید بھائو یا ناانصافی تو نہیں ہورہی ہے ؟سبھی کو ترقی کیلئے یکساںمواقع حاصل ہورہے ہیں کہ نہیں؟ کیا حکومتیں اورلوگ آئین کے مطابق چل رہے ہیں ؟ایسے بہت سے سوالات تھے ، جن کا جواب بحث کے دوران پارٹی سیاست اور مفادات سے اوپر اٹھ کر صرف ملک وقوم کے مفاد میں تلاش کیا جاتا۔ کہاں کمی اورخامی ہے یا غلطی ہورہی ہے، ان کی نشاندہی کرکے اصلاح کی جاتی اور مستقبل میں ایسی غلطی نہ کرنے کے عزم کا اظہا رکیا جاتا۔کوئی نہیں کہہ سکتاکہ بحث کے انعقاد کا مقصد صرف تقریر کرنا اورایک دوسرے پر کیچڑ اچھالناتھا، جیساکہ پارلیمنٹ کے باہر یا میڈیا کی بحثوں میں ہوتارہتاہے۔ پارلیمنٹ کے قیمتی 2دن صرف بحث کیلئے وقف کرناظاہر کرتاہے کہ یہ معاملہ ملک کیلئے کتنااہم تھا۔غورطلب امریہ ہے کہ جس پارلیمنٹ میں سرمائی اجلاس کے دوران روزانہ ہنگامہ ہورہا ہے اور ایک ایک دن میں کئی کئی باربلکہ پورے دن کیلئے کارروائی ملتوی کی جارہی ہے، اس دوران آئین پر بحث خوشگوار ماحول میں ہوئی ،حالانکہ باتوں کے تیر خوب چلائے گئے۔ سبھی نے اپنی اپنی بات کھل کر کہی، کسی کو نہ ٹوکا گیا اورنہ روکا گیا ۔ کسی نے کوئی معاملہ اٹھایا اورسرکار کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ، تو کسی نے زبانی حملہ کیااورکسی نے جواب دیا ۔بحث کے دوران حکومت اوراپوزیشن دونوں طرف سے ایک دوسرے پر خوب حملے ہوئے ، لیکن سبھی نے ان کو برداشت کیا۔کوئی ہنگامہ نہیں ہوا اورسیٹ سے کوئی نہیں اٹھا ۔لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کے پاس پہنچ کر اس کی شکایت نہیں کی گئی ۔ جس ممبر پارلیمنٹ کو جتناوقت دیا گیا، اسی میں اس نے اظہارخیال کیا۔ آخر میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھی تقریر کی اور پارلیمانی روایت کے مطابق بحث کا جواب دیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ آئین پر 2روزہ بحث سے ہم نے کتنا سیکھا؟اوراس کے مطابق آگے کیا کریں گے ؟یہ بہت اہم سوال ہے ۔کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ جتناسنجیدہ موضوع تھا، بحث کا معیار اس کے شایان شان نہیں تھا، بلکہ بہت گراہوا تھا۔حکمراں طبقہ اور اپوزیشن کی طرف سے جو بھی ایشوز اٹھائے گئے ، ان کا اثر نہ تو فوری طور پر ظاہر ہوا اورنہ اب نظر آرہا ہے ۔ ایسالگتا ہے کہ یا تو بحث کی رسم اداکردی گئی یا اس موقع کا استعمال صرف سیاسی حملے کیلئے کیا گیا ۔نہ تو محاسبہ کیا گیا اورنہ غلطی کا اعتراف۔ ویسے بھی آج کل پارلیمنٹ میں بحثوں کا معیار گرارہتاہے ۔سیاسی تقریریں زیادہ ہوتی ہیں ۔پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھیک سے نہیں چل پاتی ۔ اس کیلئے سرکار اپوزیشن پر اوراپوزیشن پارٹیاں سرکار پر الزام لگاتی ہیں ۔یہ آئین پر بحث تھی ، وہ بھی اسے اپنانے کے 75سال پورے ہونے پر، کسی سیاسی ایشو پر بحث نہیں ، جیساکہ عموماً پارلیمنٹ میں ہوتی رہتی ہے اوراس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔آئین پر بحث کے موقع کا فائدہ نہیں اٹھاسکیں تو یہ تشویشناک بات ہے۔ اس طرح کا موقع بار بار نہیں آتا، کبھی کبھار ہی آتا ہے ۔ اس لئے اسے لایعنی باتوں میں ضائع نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے ۔آئین ہی وہ بنیاد ہے ، جس کے مطابق حکومت بھی چلتی ہے ، ملک وقوم کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں اورشہریوں کی زندگی بھی گزرتی ہے ۔آئین ہی مہذب معاشرے اور قانون کے راج کی علامت ہوتی ہے ، ورنہ انارکی پھیل جائے ۔ نہ صرف حکومت چلانا ،بلکہ لوگوں کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہوجائے ۔آئین پر بحث آئین کے مطابق ہی ہوتی، سیاست کے مطابق نہیں ہوتی ، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ بحث پر سیاست حاوی رہی ۔ آئین پر بھروسہ نہیں ہونے کا الزام لگادینے سے خود کو صحیح نہیں ٹھہراسکتے ۔سوال یہ ہے کہ خود آئین پر کتنا بھروسہ کرتے اورعمل کرتے ہیں۔اگر آئین کے مطابق ملک میں سب کچھ ہوتارہتا، تو اس بحث کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔آئین پر لفظی اورسیاسی بحث کی نہیں ، بلکہ محاسبہ اورخوداحتسابی کی ضرورت تھی ، جس کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ۔امید کی جاتی ہے کہ راجیہ سبھامیں جب اس پر بحث ہوگی ، تو ان سب باتوں کا خیال رکھا جائے گا۔