یحییٰ سنوار کی موت : امن کی شروعات یازوال کی ابتدا؟

0

شاہنواز احمد صدیقی

امریکہ کو لگتاہے کہ غزہ میں حماس کے قائد یحییٰ السنوار کی موت کے بعداسرائیل اپنی شرمناک حرکتوں سے باز آجائے گا۔ امریکی حکمراں جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کو لگتاہے کہ اگلے ماہ کے پہلے عشرہ میں ہونے والے انتخابات سے قبل اگرغزہ میں جنگ بندہوگئی تو اس سے جوبائیڈن انتظامیہ کو اپنی خود کی پیٹھ تھپتھپانے کا موقع مل جائے گا۔ لہٰذا انھوںنے غزہ سے خوش خبری آتے ہی وزیرخارجہ کو چار پانچ دن کے لیے اسرائیل بھیجنے کا اعلان کردیا۔ بائیڈن کو لگتاہے کیونکہ وزیرخارجہ انٹونی بلنکن یہودی ہیں اور وہ اس غیرمعمولی وصف پر7اکتوبر 2023کے حملہ کے فوری بعد اسرائیل کے بعد، اصرار کرچکے ہیں۔ اپنے ہم منصب کو جنگ بندی پرراضی کرسکتے ہیں۔ مگر گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ کی اسرائیلی صہیونی رویہ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ان کی خام خیالی، یاخیالی پلاؤ ثابت ہوگا۔ اس بات کا یقین ہے ہر صاحب نظر وفہم وذکا اورجوبائیڈن بھی اس حقیقت سے بالکل ناواقف نہیں ہیں کہ ان کے تعلقات ان کے صدر کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل اور بعد دونوں ادوار میں ایک ہی جیسے یعنی تلخ رہے۔ 7اکتوبر کے بعد مصافحہ اورمعانقہ سب اوپری اور مصنوعی سے لگے۔ ان ملاقاتوں میں سردمہری کااحساس ہوتاتھا۔ کہاگیا ہے کہ یحییٰ السنوار کی موت کے بعدجوبائیڈن نے نتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فون پر ایک طویل مذاکرہ کیا۔ بائیڈن کولگتاہے کہ یحییٰ سنور کی موت جنگ بندی کے لیے موزوں ہے۔

غزہ میں جنگ بندی ہوگی اور اسرائیلی یرغمالی رہا کردیے جائیں گے۔ جوبائیڈن کی حکومت غزہ میں جنگ بندی کرانے کے لیے نتن یاہو کی منتیں اورسماجتیں کررہی ہے۔ ان کی ٹھوڑی میں ہاتھ ڈال رہی ہے کہ بھائی بس کرو۔ مگر دوسری طرف اسرائیل کو یہ قتل عام، نسلی تطہیر کے لیے اسلحہ گولہ بارود،میزائل، ہوائی جہاز اور ہرممکن اقتصادی، سیاسی،سفارتی اور مالی مدد فراہم کرائی جارہی ہے۔ یہ کیا کھیل ہے کہ ایک طرف آپ ایک دیوانے کو قتل عام کرنے سے روکنے کے لیے کہہ رہے ہیں تو دوسری جانب اس کو قتل و غارت گری مچانے کے تمام اسباب اورمواقع فراہم کر رہے ہیں۔

امریکہ میں اگلے ماہ الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ وہ ضعیف العمر اور دیگروجوہات سے صدارتی الیکشن نہیں لڑ رہے ہیں اوران کی نائب کملاہیرس صدارتی الیکشن لڑ رہی ہیں۔ وہ ہاریں یا ان کا حریف ڈونالڈٹرمپ ہارے، فائدہ نتن یاہو اوراسرائیل کاہوناہے۔ وہ جرمنی کے دورے پر ہیں، وہی جرمنی جس میں ہٹلرنے لاکھوں یہودیوں کو گیس چیمبر میں ہلاک کردیاتھا۔ جرمنی کے حکمراں نے جو یہودیوں کے ساتھ کیاتھا، اس سے بھی برا صہیونی فلسطینیوں کے 75سال سے کرتے آرہے ہیں اور گزشتہ ایک سال کی کارروائی میں تو صہیونیوں نے پوری دنیا کی انسانیت کو شرمسار کردیا۔ یہ شرمساری بدترین قتل عام کے ارتکاب میں بھی ہے اور خاموش تماشائی بنے رہنے سے بھی ہے۔

جرمنی میں غزہ کے قتل عام پربڑاجشن منا ہے۔ جرمنی کے وزیرخارجہ انالینا بیئربوک (Annalena Bearbok) نے کہا ہے کہ اسرائیل کو عام شہریوں، عام فلسطینیوں کو مارنے کاحق حاصل ہے۔ اب تک 42,438 فلسطینی بلاک اور 99246افراد زخمی ہیں۔ مرنے اور زخمی ہونے والے زیادہ تر بچے اورعورتیں ہیں۔غزہ کی پٹی کا پورا انتظامیہ اور بنیادی سہولیات کاڈھانچہ نیست ونابود کردیا گیا۔ کھانا پانی بند ہے۔ 2اکتوبرسے غزہ کے اندر کھاناپانی اور ادویات کو روک کررکھاجارہا ہے۔ اسرائیلی ’فوجیوں‘ نے مکمل طورپر ناکہ بندی کررکھی ہے۔ اسکول، مسجدوں، مدرسوں، مہاجرین کے کیمپوں کو تباہ کردیاگیا ہے۔ تازہ ترین واردات میں ایک اسکول میں ہی مہاجرین کے سرچھپانے کی سہولت پر بم برسا کر بے گھر 28فلسطینیوں کو ایک آن میں لقمہ اجل بنادیاگیا۔ ایسی نہ جانے کتنی وارداتیں اورہلاتیں ہیں جس کو انجام دے کر اسرائیلی قیادت اور قوم سمجھ رہی ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اپنی قوم کے لیے بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے تازہ ترین اعدادوشمار میں کہا گیا ہے کہ 133,000فلسطینی بدترین بھکمری کے شکار ہیں۔ اسرائیل کھانے پانی اور ادویات کے ٹرک غزہ کے اندر داخل نہیں ہونے دے رہا ہے۔ اس صورت حال کا اندازہ لگانے والے ایک اقوام متحدہ کے ادارے آئی پی سی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ ماہ ستمبر میں غزہ میں سب سے کم غذا داخل ہونے کی اجازت ملی تھی۔ جس تیزی کے ساتھ غذائی سپلائی روکی جارہی ہے، اس سے عام خاندان کو پانی اور غذا کی سپلائی کم سے کم ہوجائے گی۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ حالات کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

امریکہ کو اپنے اثرورسوخ پربڑاگھمنڈ ہے مگر اسرائیل نے پوری دنیا کی تمام طاقتوں کو ان کی حیثیت بتا دی ہے۔ اسرائیل کو امریکہ اور دیگر مغربی غیرمغربی ممالک سے اسلحہ اور گولہ بارود کی سپلائی رکی نہیں ہے مگر امریکہ، سپرپاور غزہ میں اشیائے خوردونوش بھیج رہا ہے۔ وہ غزہ کے بے بس مکینوں کو دینے نہیں دیاجارہا ہے۔ امریکہ سے آنے والے غذائی اور دیگرامدادی سامان کی سپلائی نہیں ہونے دی جارہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت امریکہ کے ایوان کو یہ نہیں بتایاجارہاہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو بھیجی گئی امداد، غزہ میں داخل ہی نہیں ہونے دی۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جمہوری اقدار اور ایوانوں اورنمائندوں کی کیاحیثیت ہے؟

دنیا بھر میں جمہوریت قائم کرنے والے ٹھیکیدار ممالک کو لگتاہے کہ اب بس غزہ میں مابعدجنگ امن فارمولہ نافذ کرنے کا عہدآفریں دور بھی آپہنچا ہے۔ اسرائیل کی ’قیادت‘ واضح کرچکی ہے کہ جیسا امریکہ بہادر چاہتاہے، ایسا ہوگا نہیں۔ حماس کے بعد اب کیافلسطینی اتھارٹی، الفتح اور پی ایل او اوراس قیادت کی باری ہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS