حیدر آباد (نمائندہ):اردو کے معروف فکشن نگار اور سینئر استاد پروفیسر بیگ احساس کا آج یہاں انتقال ہوگیا ہے۔ انھوں نے 8ستمبر صبح گیارہ بجے آخری سانس لی۔ وہ گذشتہ پندرہ روز سے اسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان کے انتقال سے ادبی دنیا سوگوار ہے اور ملک کے نامور ادیبوں نے اظہار تعزیت کی ہے۔
پروفیسر بیگ احساس کے انتقال پرملال پر ممتازناول نگار اور ادیب پروفیسر غضنفر نے کہا کہ بیگ احساس ان افسانہ نگاروں میں ایک تھے جنھوں نے دکنی تہذیب کو نئے رنگ وآہنگ میں پیش کیا۔ وہ فقط افسانہ نگار ہی نہیں تھے بلکہ فکشن کے پارکھی بھی تھے۔ ہمارے عہد کے جن چند فکشن نگاروں کا بے ساختہ نام لیا جاسکتا ہے ان میں بیگ احساس کا نام ضرور شامل ہے۔ مغنی تبسم کے رسالے’سب رس‘کو انھوں نے محبت ولگن اورخلوص سے زندہ رکھا ہے،وہ اپنے آپ میں بڑا کام ہے۔ وہ تحریر وتقریر میں بیباک تھے۔ ایک مرتبہ کانپور کے ایک جسلے میں کلیدی خطبے کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ آج وقت آگیا ہے کہ نقاد کی موت کا اعلان کردیا جائے۔ اس جملے سے بڑا ہنگامہ بھی ہوا تھا اور اس معنی خیز جملے پر کل بھی سوچا گیا تھا اور بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔
شعبہ لسانیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چیئرمین اور مشہور ماہرلسانیات پروفیسر محمد جہانگیر وارثی نے کہا کہ پروفیسر بیگ احساس کے افسانوں میں زندگی کا گہرا شعور ملتا ہے۔ ان کے افسانے جہاں زندگی سے قریب ہیں،وہیں لسانیات کی خوب صورتیوں سے مالا مال ہیں۔ ساہتیہ اکادمی حکومت ہند نے ان کے تیسرے افسانوی مجموعہ’’دخمہ‘‘ کا میتھلی زبان میں ترجمہ کرانے کی مجھے ذمے داری دی ہے۔ امروز وفردا میں ان کے افسانوں سے میتھلی زبان کے قارئین مستفید بھی ہوں گے۔ کاش ان کی زندگی میں میتھلی ترجمے کی اشاعت ہوجاتی تو بات ہی کچھ اور ہوتی۔
حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو پروفیسر فضل اللہ مکرم نے کہا کہ پروفیسر بیگ احساس نے جامعہ عثمانیہ اور یونیورسٹی آف حیدرآباد میں اردو طلبا کی ایک نئی کھیپ تیار کی۔ انہوں نے کئی قومی اور بین الاقوامی سمینارز کا انعقاد عمل میں لایا اور خود بھی بیرونی ممالک کا دورہ کیا اور حیدرآباد کی نمائندگی کی۔ حیدرآبادی تہذیب و ثقافت کے ترجمان تھے۔ دھیمے لہجے میں پر اثر گفتگو کیا کرتے تھے۔
دی نیو کالج چنئی،صدرشعبہ اردو ڈاکٹر طیب خرادی نے کہا کہ میرا ہمیشہ پروفیسر بیگ احساس سے استاد اور شاگرد کا رشتہ رہا ہے۔ وہ انتہائی مشفق وخلیق تھے۔ ان کے زمانہ صدارت میں ایچ سی یو میں میری پی ایچ ڈی کا وائیوا ہوا تھا۔ پروفیسربیگ احساس نہ صرف جنوبی ہند بلکہ برصغیر کی افسانوی دنیا میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ڈی ایس کالج کٹیہار کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر قسیم اختر، صحافی محسن خان، صحافی وادیب ڈاکٹر منصور خوشتر،تسخیر فاونڈیشن کے جنرل سکریٹری گلاب ربانی اوراسسٹنٹ پروفیسرساجد حسین ندوی وغیرہ نے د کھ درد کا اظہار کیا ہے۔
ڈاکٹر غضنفر اقبال کرناٹک نے کہا کہ پروفیسر بیگ احساس دیاردکن کے مقبول ترین افسانہ نگار تھے۔ان کے افسانوں میں دکنی تہذیب دکنی حسیت دکنی خاک سے تہہ دار بیانیہ کی صورت میں تہذیبی تخلیق بن گئی تھی۔ وہ دراصل چشم تہذیب کی نابصیری کے افسانہ نگار تھے مرحوم نے ملکِ دکن کی معاشرت روایت اور تہذیب کو عزیز رکھا تھا۔
واضح رہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی اور حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر بیگ احساس بیک وقت نقاد،استاد، ادیب اور مقرر تھے۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیاتھا۔ گذشتہ تین دہائیوں سے وہ بہترین افسانے لکھ رہے تھے۔ ’’حنظل،خوشہ گندم‘‘ (کہانیوں کا مجموعہ) ان کی تخلیقی صلاحیت کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس کے تازہ ترین افسانوی مجموعہ’’دخمہ ‘‘پرملک کا معزر ترین ادبی سرکاری اعزاز ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ شاذ تمکنت پر انھوں نے مونو گراف بھی لکھا ہے۔ ایم اے ایم فل کے علاوہ پی ایچ ڈی کی سطح پر ان کے شاگردوں میں چند ایک نامور شاعر وادیب بھی ہیں۔ ان کا پی ایچ ڈی مقالہ ’’کرشن چندر شخصیت اور فن ‘‘ایک اہم تنقیدی کتاب تسلیم کی گئی ہے۔