اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ 77 واں اجلاس آج ختم ہونے والا ہے۔ دنیا بھر کے 199ممالک کے سربراہان یا ان کے بااختیار نمائندے اس اجلاس میں شریک ہیں ۔13ستمبر سے جاری اس اجلاس کا دنیا پرکیا اثر پڑے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گالیکن فی الحال دنیا جن مشکلات وآلام، مصائب و آفات میںگرفتار ہے اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔اس اکیسویں صدی میںبھی جب دنیا زہرہ و مریخ کو فتح کررہی ہے اورآرام وآسائش کے ہزاروں وسائل اس نے اکٹھے کرلیے ہیں، اس کے باوجود ابھی اس مقام پر بھی نہیں پہنچ پائی ہے جہاں وہ انسانوں کی بنیادی ضرورت غذا اور خوراک کی مکمل فراہمی کا سامان کرسکے ۔
آج دنیا میں ہر چار سیکنڈ پر ایک شخص کی بھوک سے موت ہورہی ہے ۔بھوک کی آسمان چھوتی اس سطح پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے 238 مقامی اور بین الاقوامی رضاکار اداروں نے اقوام متحدہ کی 77 ویں جنرل اسمبلی میں جمع ہونے والے رہنمائوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سمت فیصلہ کن اقدامات کریں ۔بھوک کے بڑھتے عالمی بحران کو ختم کرنے کیلئے 75 ممالک کی تنظیموں نے ان رہنمائوں کو کھلا خط بھی لکھا ہے جس میںبھوک سے نمٹنے کیلئے کئی ایک سفارشات کی گئی ہیں۔اس خط کے مشمولات میں جواعداد و شمار دیے گئے ہیں انہیں دیکھ کر یہ نہیںلگتا کہ یہ اسی دنیا سے متعلق ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی کے معجزے دکھارہی ہے۔ دنیا بھر میں 345ملین لوگ یعنی 34 کروڑ 50 لاکھ افراد کو شدید بھوک کا سامنا ہے ۔ یہ تعداد2019کے بعد سے دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ اسی اقوام متحدہ کے سابق اجلاسوںمیں دنیا بھر کے رہنمائوں نے اس وعدہ اور عزم کا اعلان کیا تھا کہ 21ویں صدی میں دوبارہ کبھی قحط نہیںآنے دیا جائے گا، اس کے باوجودصومالیہ شدید ترین قحط سالی کا شکارہے اور دنیا کے 45 ممالک میں50ملین لوگ فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں۔ افریقی ممالک میں خوراک کی قلت اتنی شدید ہوتی جارہی ہے کہ یہ تیزی سے قحط کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ صومالیہ، ایتھوپیا، نائیجیریااور یمن جیسے ممالک میں بھوک کی وبا نے ایک طویل مدت سے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ اکتوبر سے اگلے جنوری کے درمیان غذا کی قلت مزید سنگین شکل اختیار کرنے والی ہے۔دنیا کا کوئی ملک یا براعظم ایسا نہیں ہے جہاں بھوکے لوگوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا ہو اور فاقہ کشی کے سائے گہرے نہ ہوئے ہوں۔
یہ صورتحال کیوں ہے ؟دنیا کے کروڑوں افرادکو فاقہ کشی کا سامنا کیوںہے، غذائی بحران کا اصل سبب کیا ہے؟ان سوالوں کاجواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کی اہم وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے جو دنیا بھر کے ممالک کو متاثر کررہی ہے، بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اناج کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔کئی افریقی ممالک خاص کر صومالیہ میں پانچ سال سے بارش نہیں ہوئی ہے، زراعت اور مویشی پروری کا شعبہ بحران کا شکارہے۔ خوراک اور پینے کے پانی کی کمی کے باعث لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ خوراک سے متعلق اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، بچوں میں غذائی قلت کی شرح تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہے۔
لیکن موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک کریہہ حقیقت یہ بھی ہے کہ فاقہ کشی کی وجہ اناج کی پیداوار میں کمی نہیں ہے، بلکہ خوراک کی تقسیم میں عدم مساوات اور ناانصافی ہے ۔ہوس زر اور ملک گیری کے جویا ترقی یافتہ ممالک دنیا کو گلوبل ویلیج قرار دے کر ان کے سارے وسائل و ذرائع پرقابض ہوگئے ہیں، پیداواری منبع کا سارارخ اپنی جانب موڑ لیا ہے ۔اس کے نتیجہ میں دنیا بھاری عدم توازن کا بھی شکار ہوگئی ہے۔ ایک طرف قدرتی آفات ہیںتو دوسری جانب سیاسی بدامنی اور تیسری جانب سے کووڈ وبا کی حالیہ یلغار نے تمام غریب ممالک میں بے روزگاری کو بھیانک شکل دے کر آمدنی کو کم یا ختم کردیا ہے۔اکثریت کی قوت خریدختم ہوگئی ہے۔ روس – یوکرین کی جاری جنگ کے نام پر اناج برآمد کرنے والے ممالک اپنے اناج کے ذخائر کی نکاسی کیلئے بھی تیار نہیںہیں، اس کی وجہ سے طلب و رسد کا توازن بگڑگیا ہے اور تقسیم کا عمل بھی سست رو ہوگیاہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھوک عالمی بحران کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ ان حالات میں عالمی طاقتوں کی باندی بن کر ان کے جیو پولیٹیکل مفادات کی نگہبانی سے آگے بڑھ کر اقوام متحدہ کواپنے قیام کے بنیادی ہدف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے جاریہ اجلاس میں اگر بنیادی انسانی چیلنج سے نمٹنے کے اقدامات نہیں کیے گئے تو پھر ایسے بین الاقوامی ادارے اور اجلاس کا کوئی حاصل نہیں ہوگا۔
[email protected]
بھوک سے ہوتی موت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS