موت اور میت:اسلامی تناظر میں

0

ڈاکٹرحافظ کرناٹکی

موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے، زندگی کی پہلی آہٹ اور سانس کے ساتھ ہر جاندار کا سفر موت کی طرف ہوتا ہے۔ مگر اکثر لوگ موت کو فراموش کرکے اسے زندگی کی پرواز سمجھتے ہیں اور زندگی کے لازمے اور تلازمے میں اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ موت کا خیال تک نہیں آتا ہے۔
زندگی گزارنے کے لیے ہمیں بہت سے رشتے دار، دوست احباب اور جانے انجانے لوگوں کا ساتھ مل جاتا ہے۔ مگر موت کا سفر ہمیں تن تنہا طے کرنا پڑتا ہے۔ موت کا خوف ہر انسان کو ہوتا ہے، اسے بھی جو اپنی زندگی میں موت کو کبھی خاطر میں نہیں لاتا ہے۔ مگر جب موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے زندگی بے معنیٰ اور بے حقیقت معلوم ہونے لگتی ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں دین اور دینداری ،ایمان اور ایمان کے تقاضوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے ہیں وہ بھی موت کی آہٹ سن کر ایمان کی روشنی کی طرف لپکنے کی کوشش کرتا ہے اور دل و جان سے چاہنے لگتا ہے کہ کم از کم مرنے کے وقت اس کی زبان سے کلمہ توحید ضرور نکلے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سکھایا ہے کہ جب آپ کسی قریب المرگ انسان کے پاس جائیں تو ذرا بلند آواز سے کلمہ توحید لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ پڑھتے رہیں، مگر مریض سے یہ تقاضہ نہ کریں کہ وہ بھی اس کلمہ کو پڑھے یا آپ کے ساتھ دہرائے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ جب مرنے والوں کے پاس بیٹھو تو کلمہ کا ذکر کرتے رہو۔
نزع کے وقت سورہ یٰسین کی تلاوت کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ مرنے والوں کے قریب سورہ یٰسین پڑھا کرو، ہاں دم نکلنے کے بعد جب تک میت کو غسل نہ دے دیا جائے، اس کے پاس بیٹھ کر قرآن شریف نہیں پڑھنا چاہیے۔ اور ان تمام لوگوں کو چاہیے کہ میت کے پاس نہ جائے جو پاک نہیں ہیں۔ کسی کی بھی موت کی خبر سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی مصیبت کے وقت انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے اس کے لیے تین اجر ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ اس پر خدا کی طرف سے رحمت اور سلامتی اترتی ہے۔دوم یہ کہ اس کو حق کی تلاش و جستجو کا اجر ملتا ہے۔سوم یہ کہ اس کے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے اور اس کو فوت ہونے والی چیز کا اس سے اچھا بدلہ دیا جاتا ہے۔
اسلام چوں کہ انسان کو خدا سے قریب کرکے ایک مہذب انسان بنانے والا سچا اور فطری مذہب ہے، اس لیے وہ ہر حال میں اپنے ماننے والوں کی تربیت پر توجہ کرتا ہے۔ تا کہ اس کا وقار بھی قائم رہے۔ لہٰذا اسلام کا حکم ہے کہ مرنے والے کے غم میں چیخنا اور چلانا نہیں چاہیے۔ البتہ غم میں آنسو نکل پڑیں تو یہ فطری بات ہے۔ حضورؐ کے فرزند حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ اسی طرح آپؐ کے نواسے ابن زینبؓ کا انتقال ہوا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ پوچھا گیا! یا رسول اللہ ؐ یہ کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا؛ یہ رحمت ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ دی ہے۔ اور خدا اپنے بندوں میں سے انہیں بندوں پر رحم فرماتا ہے جو رحم کرنے والے ہیں۔ اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا؛ ’’جو منہ پر طمانچے مارے، گریبان پھاڑے، جاہلیت کی طرح بین کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو چاہیے کہ اس کی خوبیوں کا ذکرکیا جائے، اس کی برائی بیان نہ کی جائے۔ حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ؛ ’’اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کیا کرو اور ان کی برائیوں سے زبان کو بند رکھا کرو۔‘‘ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ؛’’جب کوئی شخص مرتا ہے اور اس کے چار پڑوسی اس کے بھلا ہونے کی گواہی دیتے ہیں تو خدا فرماتا ہے میں نے تمہاری شہادت قبول کرلی اور جن باتوں کا تمہیں علم نہیں تھا وہ میں نے معاف کردیں۔‘‘
معلوم یہ ہوا کہ اللہ اپنے بندوں کی بیان کردہ نیکیوں اور اچھائیوں کی بھی لاج رکھ لیتا ہے اور اسے میت کے حق میںنیکی میںشمار کر کے اس کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ ایک بار حضورؐ کے سامنے صحابہؓ نے ایک جنازے کی تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا کہ؛ ’’اس کے لیے جنت واجب ہوگئی لوگو! تم زمین پر خدا کے گواہ ہو، تم جس کو اچھا کہتے ہو خدا اس کو جنت میں داخل کردیتا ہے اور تم جس کو برا کہتے ہو خدا اس کو دوزخ میں بھیج دیتا ہے۔‘‘
مومن بندہ اس دھرتی پر اللہ اور اللہ کے دین کا وارث ہے۔ اسی لیے اس کی گواہی اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں اور اپنی رحمت سے کام لے کر مرنے والے کو بخش دیتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛’’جب کسی مریض کی عیادت کرنے جاؤ یا کسی کے جنازے میں شرکت کرو تو ہمیشہ زبان سے خیر کے کلمات کہو کیوں کہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے جاتے ہیں۔‘‘
موت بر حق ہے۔ اس لیے موت پر ہمیشہ صبر و استقلال کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اپنی زبان سے ناشکری کے کلمات ادا نہ کرنے چاہئیں۔ جب کوئی انسان اپنے بچے کی موت پر صبر کرتا ہے اور اللہ کی حمد وثنا کرتا ہے تو اللہ اپنے اس بندے کے لیے جنت میں محل تعمیر کروادیتا ہے۔ جب کسی کی موت واقع ہوجائے تو اسے جلد سے جلد غسل دے کر کفن پہنادینا چاہیے۔ حضورؐ نے فرمایا؛ ’’جس نے کسی میت کو غسل دیا اور اس کے عیب کو چھپایا خدا ایسے بندے کے چالیس کبیرہ گناہ بخش دیتا ہے۔ اور جس نے کسی میت کو قبر میں اتارا تو گویا اس نے میت کو روز حشر تک کے لیے رہنے کو مکان مہیا کیا۔‘‘
عام طور پر دیکھاگیا ہے کہ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی میت کو لوگ کئی دنوں تک روکے رکھتے ہیں کہ فلاں فلاں رشتے دار آنیوالے ہیں۔ یہ اچھا طریقہ نہیں ہے۔ بعض لوگ جس طرح شادی میں اپنی امارت کا مظاہرہ کرتے ہیں اسی طرح میت کے کفن دفن میں بھی اپنی امارت کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ کفن اوسط درجے کے کپڑے کا دیناچاہیے، حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛ ’’جس نے کسی میت کو کفن پہنایا تو خدا اس کو جنت میں سندس اور استبرق کا لباس پہنائے گا۔‘‘
میت کو کفن پہنانے کے بعد قبرستان کی طرف لے جاتے وقت رفتار کو تیز رکھنی چاہیے۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛’’جنازے میں جلدی کیا کرو، ابن مسعودؓ نے حضورؐ سے پوچھا یا رسول اللہ جنازے کو کس رفتار سے لے جایا کریں، تو آپؐ نے فرمایا؛ جلدی جلدی دوڑنے کی رفتار سے کچھ کم اگر مردہ صاحب خیر ہے تو اس کو انجام خیر تک جلدی پہونچاؤ اور اگر صاحب شر ہے تو اس شر کو اپنے سے جلد دور کرو۔‘‘
جنازے کا احترام بھی اسلامی طریقے میں شامل ہے۔ جنازے کے ساتھ پیدل چلنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو گاڑی سواری کا اہتمام نہ کرنا چاہیے۔ حضورؐ ایک بار ایک جنازے کے ساتھ چلے ۔ تو آپؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ سوار ہیں، آپؐ نے ان لوگوں سے کہا کیا تمہیں شرم نہیں آتی ہے کہ خدا کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھ پرسوار ہو، البتہ جنازے سے واپسی کے وقت سواری سے آسکتے ہیں کیوں کہ حضورؐ ایک صحابیؓ کے جنازے میں پیدل چل کر گئے اور واپسی میں گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔
جنازہ اگر کسی مسلمان کا ہے تو اوّل یہ کوشش ہونی چاہیے کہ جنازے میں شرکت ہو جائے اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم جنازے کو دیکھ کر اس کے احترام میں کھڑا ہو جانا چاہیے۔ حضورؐ نے فرمایاہے کہ؛ ’’جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ اور جو لوگ جنازے کے ساتھ جائیں وہ اس وقت تک نہ بیٹھیں جب تک جنازہ رکھ دیا نہ جائے۔‘‘ جنازے میں شرکت کرنے کا بھی ثواب ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛’’جو شخص جنازے میں شریک ہو اور جنازے کی نماز پڑھی تو اس کو ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے۔ نماز جنازہ کے بعد جو دفن میں بھی شریک ہو اس کو دوقیراط کے برابر ثواب ملتا ہے۔ کسی نے پوچھا دوقیراط کتنے بڑے ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا دو پہاڑوں کے برابر۔‘‘
اسلام کا انسانی تہذیب پر یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے بچے کی پیدائش سے لے کر موت اور کفن دفن تک کے تمام مراحل کے لیے بہت واضح احکام فرمادیاہے۔ میت کے غسل سے لے کر اس کے قبر میں لٹانے اور مٹی ڈالنے تک کے طریقے کی وضاحت کردی ہے۔ اور صاف طور پر بتادیاہے کہ قبرپرمٹی ڈالتے وقت سرہانے کی طرف سے ابتداء کرنی چاہیے اور دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر تین بار ڈالنی چاہیے اور پہلی بار مٹی ڈالتے وقت منھا خلقناکم (اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا)پڑھنا چاہیے اور دوسری بار مٹی ڈالتے وقت وفیھا نعیدکم (اور اسی میں ہم تمہیں لوٹارہے ہیں)پڑھنا چاہیے۔ اور تیسری بار جب مٹی ڈالی جائے تو ومنھا نخرجکم تارۃ اخریٰ(اور اسی سے ہم تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے)پڑھنا چاہیے۔
جب میت کو دفن کردیا جائے تو تھوڑی دیر قبر کے پاس ٹھہرناچاہیے۔ اور میت کے لیے دعا کرنی چاہیے، ممکن ہو تو تھوڑا سا قرآن بھی پڑھنا چاہیے اور اس کا ثواب میت کو پہونچے ایسی دعا کرنی چاہیے۔ لوگوں کو بھی اس طرف متوجہ کرناچاہیے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ کسی کی میت میں شامل ہوتے ہیں تو بہت عجلت سے کام لیتے ہیں۔ اپنی اپنی گاڑیوں سے آندھی طوفان کی طرح آتے ہیں، قبرستان پہونچتے ہیں اور نماز جنازہ پڑھ کر فوراً بھاگ جاتے ہیں۔ گویا انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا ہے کہ جس کاروبارزندگی کے لیے وہ میت کو چھوڑ کر اور قبرستان کی فضا سے دور بھاگ رہے ہیں آخر کار انہیں بھی یہیں آنا ہے۔ دنیا کا سارا کاروبار پڑا رہ جائے گا۔ حضورؐ میت کے دفن کے بعد خود بھی استغفار فرماتے تھے۔ لوگوں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے یہ وقت حساب کا ہے۔ اپنے بھائی کے لیے ثابت قدمی کی دعا مانگو اور مغفرت طلب کرو۔
اسلام یہ بھی سکھاتا ہے کہ اگر کسی عزیز رشتے دار، دوست، یا پڑوسی کے یہاں کسی کی موت ہوجائے تو اس کی غم گساری کے لیے ایک دو وقت کھانا ضرور بھیجنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جس کے گھر میں کسی کی موت واقع ہوتی ہے وہ لوگ غم سے نڈھال ہوں گے، اور ان کے بہت سارے رشتے دار بھی قرب وجوار سے جمع ہوں گے۔ ایسے میں وہ اپنے مہمانوں کی تواضع نہیں کرسکیں گے۔ لہٰذا یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ پڑوسی اور رشتے دار اس ذمہ داری کو نبھائیں۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر جب مدینہ پہونچی تو آپؐ نے فرمایا؛ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، وہ آج مشغول ہیں۔
اسلام نے مسلمانوں کو ہر حال میں اپنے رب کا شکرگزار رہنے کی تلقین کی ہے۔ کیوں کہ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ موت اور زندگی کس کے لیے کتنی بہتر ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کی موت پر بھی ہر حال میں صبر و شکر کا دامن تھامے رہنا چاہیے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS