ایم اے کنول جعفری
مرد اساس معاشرے کی مسخ شدہ سوچ، شعور میں کمی اور حالات کا بہادری سے مقابلہ نہیں کرنے کی وجہ سے اکثر بیٹیاںجبروتشدد کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی مرتبہ انہیں بیٹی یا بیٹی کے بعد پھر بیٹی پیدا کرنے پر طعنے سننے پڑتے ہیںتو بعض اوقات انہیں مہنگی کار، زیورات اورموٹی رقم نہیں دینے پر طعنہ زنی کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔کبھی روزانہ ہراسانی کی شکار لڑکیاں والدین اور بھائیوں کے ذریعہ سسرال والوں کی منھ بھرائی کرنے میں ناکام رہنے کی صورت میں خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اگر وہ خودکشی کے انتہائی تکلیف دہ راستے کا انتخاب نہ بھی کریںتو مٹی کا تیل، پٹرول یا کھانا پکانے کی گیس کے بہانے خودکشی یا پھر مکان کی چھت سے دھکیل کرمار ڈالنے کو خودکشی کا نام دے دیا جاتا ہے۔
خاندانی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی حالات پر دسترس نہیں رکھنے والے والدین اسے محض ایک حادثہ اور خدا کی مرضی تسلیم کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ ان کے پاس خاموش رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس طرح کے معاملات کی گہرائی میں جاتے ہیں اور حقیقت سے آگاہ ہونے کے بعد اس جرم میں ملوث دلہا اور دلہا کے اہل خانہ کے خلاف تھانے میں بیٹی کے قتل کا مقدمہ درج کراکر اُنہیں عدالت اور کچہری میں ہی نہیں گھسیٹتے،بلکہ بیٹی کو انصاف دلانے کی لمبی لڑائی کو انجام تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ 11 جنوری 2024 کو بیٹی کی پیدائش ہونے پر بہو کو طعنہ دینے اور جہیز کے سبب موت کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس سورن کانتا شرما نے خاندانی نسب کو آگے بڑھانے کے لیے بیٹے کو جنم نہیں دینے کے نام پر اپنی بہوؤں کو طعنے مارنے والے افراد کی سخت الفاظ میں سرزنش کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بچے کی جنس کے لیے بہو، نہیں،بلکہ ان کا بیٹا ذمہ دار ہے۔ عدالت نے سائنسی حقائق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بچے کی جنس کا تعلق والدین کے کروموسوم سے ہے۔ عورت کے جسم میں صرف’ایکس‘کروموسوم ہوتا ہے، جبکہ مرد کے جسم میں ’ایکس اور وائی دونوں قسم کے کروموسوم ہوتے ہیں۔ ایکس سے ایکس کروموسوم ملنے سے لڑکی پیدا ہوتی ہے، جبکہ ایکس سے وائی کروموسوم ملنے سے لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود اس قسم کے معاملات میں جینیاتی سائنس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرے کے کتنے ہی لوگ آج بھی دقیانوسی روش پر چلتے ہوئے بہوؤں کے اندر عیب تلاش کرنے کا بہانہ ہاتھ سے نکلنے دینا نہیں چاہتے۔ اس حوالے سے معاشرے کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہائی کورٹ نے جہیزی موت کے معاملے میں مذکورہ تبصرہ کرتے ہوئے ملزم شوہر کو ضمانت دینے سے انکار کردیا۔ شوہر اور اس کے گھر والوں پر الزام ہے کہ انہوں نے کم جہیز لانے اور دو لڑکیوں کو جنم دینے کے لیے خاتون کومسلسل اس طریقے سے ہراساں کیا کہ اُس نے تنگ آ کر خودکشی کرلی۔ مقتول کے والد نے الزام عائد کیا کہ سسرال میں اس کی بیٹی کو مسلسل طعنے دیے جاتے تھے۔ آج کے دور میں کسی عورت کے وجود کومادی چیزوں کی بنیاد پرپرکھنا، اس کے وقار اور مساوات کے اصول کے خلاف ہے۔ جہیز کے مطالبے کے بارے میں ایسی ذہنیت اور اس طرح کے واقعات کا مسلسل رونما ہونا سماجی تشویش کا باعث ہے۔ یہ شادی شدہ عورتوں کے سامنے درپیش چیلنجوں کی نشاندہی کرتا ہے، جن کی عزت اس بات پر منحصر ہے کہ آیا اس کے ماں باپ سسرال والوں کے جہیز کے مطالبات پورے کرنے میں کتنے قابل اورقادر ہیں۔ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ خاتون نے سسرال والوں کے طعنوں سے تنگ آکر خودکشی کی ہے۔ ایسے جرائم کو سنگین اور ناقابل قبول سمجھا جانا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ الزامات سنگین نوعیت کے ہیں۔ اس کے علاوہ الزامات طے کرنے اور گواہوں کے بیانات ہونے کا کام بھی باقی ہے، اس لیے ملزم کو ابھی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
آج معاشرے میں لارڈ ولیم بینٹک، راجا رام موہن رائے اور سر سید احمد خان جیسے سماجی مصلحین کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جرم کوئی اور کرتا ہے،جبکہ سزا کسی اورکو بھگتنی پڑتی ہے۔انہی خطوط پر خاندانی زندگی کے ڈرامے میں موجود کرداروں میںاُس کردار کو ایک ایسے جرم کی سزا دے دی جاتی ہے جس کے لیے وہ ذمہ دارہی نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس قسم کی سزا عورت کے اہم کردار یعنی بیوی کے حصے میں ڈال دی جاتی ہے۔ تعلیم کے فقدان کے زمانے میں لڑکی پیدا ہونے کے اُلہانے بہو کو دیے جاتے تھے اور اسے بڑی حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتاتھا۔ اگر بہو کے بطن سے کئی بیٹیاں پیدا ہوجاتیں، تو اس کی زندگی حرام ہوجاتی۔کبھی کبھی نوبت طلاق تک آجاتی تھی۔ جینیاتی سائنس ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہی ہے کہ انسانی جسم کے ہر خلیے میں کروموسوم کی عام تعداد 46 یا 23 جوڑے ہوتی ہے۔ آدھے کروموسوم حیاتیاتی ماں سے اور نصف کروموسوم حیاتیاتی باپ سے وراثت میں ملتے ہیں۔ساخت کے لحاظ سے کروموسوم کے جوڑوں کو ایک سے 22 تک ترتیب دیا گیا ہے۔23 ویں جوڑی کو ’ایکس‘ یا ’وائی‘کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ پہلے 22 جوڑے’ آٹوسوم‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور 23 ویں جوڑے کو ’جنسی کروموسوم‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ جوڑا فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کوئی مذکر پیدا ہوگا یامؤنث۔ خواتین میں صرف’ایکس‘ کروموسوم ہوتے ہیں، جبکہ مردوں میں ’ایکس‘ اور’وائی‘ دونوں کروموسوم پائے جاتے ہیں۔ عورت کے ’ ایکس‘ کروموسوم اور مرد کے ’ ایکس‘ کروموسوم کے ملاپ سے لڑکی پیدا ہوتی ہے، جبکہ عورت کے ’ ایکس‘ کروموسوم اور مرد کے ’وائی‘ کروموسوم کے ملاپ سے لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ بچے کی جنس کے تعین کا ذمہ دار صرف اور صرف مرد ہے۔ عورت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد خاتون کو طعنہ دینا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ جہیز کی روک تھام کے ایکٹ 1961 کے مطابق جہیز لینے، دینے یا اس میں مدد کرنے والوں کے لیے پانچ سال قید اور 15000 روپے جرمانے کا انتظام ہے۔ جہیز کے لیے ہراساں کرنا یا قیمتی سامان کا مطالبہ کرنا آئی پی سی کی دفعہ 498اے کے تحت تین سال کی قید اور جرمانے کی سزا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 6516 بیٹیاں قربان کی گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر روز 17 بیٹیاں جہیز کے لیے اپنی قیمتی جانیں گنواتی رہیں۔ مختلف تھانوں میں 14,04,593 مقدمات درج ہوئے۔انتہائی شرم کی بات ہے کہ پڑھے لکھے معاشرے کے لوگ بھی لڑکی کے والدین سے پیسے، گاڑی، زیورات، عیش و عشرت کا سامان اور تحائف لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جہیز کے رواج کے لیے کوئی ایک فریق ذمہ دار نہیں ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ اس کا ذمہ دار ہے۔ بیٹی کے لیے جہاں اچھے شوہر کے بجائے اچھے مکان اور دولت کو ترجیح دی جاتی ہے،وہیں بیٹے کے لیے اچھی بہو کی بجائے زیادہ جہیز دینے والے خاندان کو فوقیت دی جاتی ہے۔
چوں کہ انسان ایک سماجی معمار ہے، اس لیے اسے سماج کے انتشار کا نہیں، بلکہ اتحاد کے لیے کام کرنے چاہئیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم بیٹے کی خواہش اور جہیز کے لالچ کوترک کردیں اوربیٹے و بیٹی میں امتیاز نہیں کرنے کی ترغیب دوسروں کو دینے کے بجائے اس کی شروعات اپنے گھر سے کریں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]
جنس و جہیز کیلئے ہراسانی کا شکار ہوتی بیٹیاں: ایم اے کنول جعفری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS