ایس ایم عارف حسین، مشیرآباد، حیدرآباد
یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ انسان اپنے خونی رشتہ کے دکھ درد کو ایسا محسوس کرتا ہے گویاوہ خود اس کا دکھ درد ہو۔ دکھ درد کا یہ احساس بیٹیوں اور ماں باپ کے مابین کس طرح محسوس کیا جاتا ہے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔بیٹیاں ماں باپ کا لخت جگر ہوتی ہیں، شادی کے بعد جب ایک بیٹی گھر سے وداع ہوتی ہے تب ماں باپ اپنے آپ کو یک دم تنہا محسوس کرتے ہیں گویا ان کے جسم کے ایک حصہ کو ہمیشہ کے لیے کاٹ کر علاحدہ کردیا گیا ہو۔ دور دراز موجود بیٹی جب اپنی نجی زندگی کے بارے میں ماں باپ سے گفتگو کرتی ہے تو یقین مانئے بیٹی کی آواز کی اونچ نیچ سے ہی ماں باپ اندازہ لگاتے ہیں کہ انکی بیٹی واقعی خوشحال ہے یا پھر کسی ذہنی و جسمانی تکلیف میں مبتلا ہے ،گرچہ بیٹی اپنی تکالیف پرہنسی کی چادر ڈالکر خوشی کا اظہار کرتی ہے۔ بیٹی اپنی شادی شدہ زندگی میں مختلف حالات سے گزرتی ہے اور متعدد تکالیف کا سامنا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے سینے سے جو’آہ‘ نکلتی ہے وہ ماں باپ سے چھپی نہیں رہتی خواہ ایک دوسرے کے درمیان سینکڑوں اور ہزاروں میل کا فاصلہ ہو۔
بیٹی کو پیش آنے والے حالات ماں باپ کواندر ہی اندر رلاتے ہیں اوراکثر اوقات بے ساختہ آنسو بھی بہہ نکلتے ہیں۔ ان آنسوؤں کو ماں باپ بڑی خوبی سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ،بڑی حدتک اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ان آنسوؤں کوسواے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں دیکھ پاتا۔ماں باپ کا یہ عمل بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ اور بیٹی کے درمیان ا حساس ا ور محبت کا کتنا گہرہ رشتہ قائم کیا ہے۔ لوگوں کو اس رشتہ کی قدر کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے دل سے’آہ‘ نہ نکلے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے خواتین کے مقام کوبلند کیا ہے۔’ ماں‘ کے قدموں کے نیچے جنت رکھی گئی ہے۔’بہن‘ کو جنت میں لے جانے کا سبب بنایا گیاہے۔ ’بیوی‘ کو جائے سکون قرار دیا گیا، اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی گئی، اس کو اولاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا گیا۔ اور’ بیٹی‘ کو رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ لہذا لوگوں کو چاہئے کہ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی قدر کریں اور ان کو محبت دے کر دنیاوی زندگی میں خوشیاں بٹوریں اور آخرت میں نعمتوں سے سرفراز ہونے پر یقین رکھیں۔
دکھ سے بھرے بہتے آنسوں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں اور اللہ کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی یہ توجہ ایک طرف مظلوموں کی حفاظت کرتی ہے تو دوسری طرف ظالموں پر غیض و غضب نازل کرتی ہے۔
خاص کر شوہر و سسرالی افراد کو چاہئے کہ بہو کی شکل میں گھر آنیوالی بیٹیوں کو محبت دیں تاکہ ان کے ماں باپ کی آنکھوں سے دکھ بھرے آنسوں نہ بہیں ورنہ اس کا سبب بننے والوں کو اللہ تعالی کے غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے ’ستر ماؤں کی محبت‘ کے برابر محبت کرتے ہیں۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ مخلوق کے دکھ سے بھرے بہتے آنسوں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں اور اللہ کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی یہ توجہ ایک طرف مظلوموں کی حفاظت کرتی ہے تو دوسری طرف ظالموں پر غیض و غضب نازل کرتی ہے۔ ۔ qq