دارالمصنفین اور بھوپال، صد سالہ رشتہ کے تناظر میں: عارف عزیز (بھوپال)

0

عارف عزیز (بھوپال)
وسط ہند وستان کی نسبتاً ایک چھوٹی ریاست بھوپال اپنے جائے وقوع اور چار نسلوں تک جاری رہنے والی بیگمات کی حکمرانی نیز اُن کی معارف نوازی کے باعث ہندوستان میں ایک منفرد مقام کی حامل رہی ہے۔ ریاست کی آخری بیگم نواب سلطان جہاں (۱۸۸۵ء-۱۹۳۰ء) نے بھی خاندانی علم دوستی کی اِس روایت کی توسیع کرتے ہوئے قومی و علمی اداروں کی اِس حد تک سرپرستی کی کوئی بڑا ادارہ ایسا نہ رہا، جو بیگم صاحبہ کے چشمِ فیض سے سیراب نہ ہوا ہو، وہ بانی دارالمصنفین اعظم گڑھ علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷-۱۹۱۴ء) کی عبقری شخصیت و علمی خدمات سے حد درجہ متاثر تھیں اور اُن کے ساتھ لطف و کرم کا سلوک اور علمی کاموں میں سرپرستی فرماتی تھیں۔ علامہ شبلی کی سلطان جہاں بیگم سے ۱۹۰۵ء میں پہلی ملاقات ہوئی تو شبلی اِتنے متاثر ہوئے کہ ’الندوہ‘ میں ان کی قومی خدمات پر ایک مضمون سپرد قلم کیا۔ عقیدت کا یہ تاثر اُس وقت مزید گہرا ہوگیا، جب شبلی نے ’سیرت النبیؐ‘ کی تالیف کا عزم کرکے قوم سے اُس کے ماہانہ مصارف اور مآخذ کی کتب خریدنے کے لئے مالی امداد کی درخواست کی۔ سلطان جہاں کو یہ اطلاع ملی تو انہوں نے محکمہ تاریخ کے مہتمم منشی محمد امین زبیری (۱۸۶۸ء۱۹۵۸ء) کے مشورہ پر سیرت النبی کے جملہ مصارف کی ذمہ داری قبول کرکے دوسری تمام امدادوں سے شبلی کو بے نیاز کر دیا اور حکم صادر فرمایا۔
’چونکہ اردو میں اِس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مفصل اور مستند سوانح عمری موجود نہیں ہے، اِس لئے جب مجھے معلوم ہوا کہ شمس العلماء مولانا شبلی جو تاریخ اسلام کے ایک باکمال اور مستند مورخ ہیں، سیرت النبیؐ مرتب کرنا چاہتے ہیں، لیکن مالی امداد سے مجبور ہیں اور انہوں نے امداد کی ایک اپیل شائع کی ہے، میں نے اس اپیل کو دیکھا اور افسوس ہوا کہ ایسی ضروری مذہبی تصنیف کے لئے پبلک سے اپیل کرنے کی نوبت پہنچی ہے۔ میں نے اُن کو مطلع کیا کہ فوراً کام شروع کردیں، جس قدر روپئے کی اپیل کی گئی ہے، وہ میں دوں گی، لیکن اپیل میں اُن کتابوں کا ذکر نہیں جو تالیف میں ضروری تھیں۔ جب حمید اللہ خاں (بیگم صاحبہ کے چھوٹے صاحبزادے) کو یہ ضرورت معلوم ہوئی تو انہوں نے اس ثواب میں حصہ لینے کے لئے فوراً دوہزار روپئے مزید کتب کے لئے مولانا کے پاس بھیج دیئے اور اجازت دی کہ جس قدر کتابوں کی ضرورت ہو وہ بھی خرید لی جائیں اور اس کی قیمت ادا کر دی جائے گی۔‘
اِس فیاضانہ پیش کش کا علامہ شبلی نے بڑی مسرت کے ساتھ اپریل ۱۹۱۲ء کے ’الندوہ‘ میں ان الفاظ کے ساتھ اعلان کیا
’مجلس تالیف سیرتِ نبویؐ نے چندوں کی وصولی کرنے کی جن تدابیر کا اعلان کیا تھا، ایک زبیدۂ وقت نے اِن سب کو منسوخ کر دیا اور تمام وصول، شدہ چندے واپس کر دئے گئے۔‘‘
’بیگم بھوپال کی طرف سے دو سو روپئے ماہوار مقرر ہوئے تو مصارف کی جانب سے مطمئن ہوکر شبلی ہمہ تن سیرت کی تالیف میں مصروف ہوگئے۔‘ (مولانا شاہ معین الدین ندوی- ’دار المصنفین اور ریاست بھوپال‘، سہ ماہی ’فکر و آگہی‘ دہلی ’بھوپال نمبر‘ شمارہ ۱۰-۱۱ اور ۱۲- ۱۹۹۶ء)
درجِ بالا عبارت کی علامہ شبلی کے اِن اشعار سے بھی تصدیق ہوتی ہے ؎
مصارف کی طرف سے مطمئن ہوں، میں بہر صورت
کہ ابرِ فیضِ سلطانِ جہاں بیگم زر افشاں ہے
رہی تالیف و تنقید، روایت ہائے تاریخی
تو اس کے واسطے حاضر میرا دل ہے، میری جاں ہے
غرض دو ہاتھ ہیں، اِس کام کے انجام میں شامل
کہ جن میں اِک فقیر بے نوا ہے، ایک سلطاں ہے
(’کلیاتِ شبلی‘ ارد و صفحہ ۱۱۲)
ماحول و موسم شبلی کیلئے پرسکون نہیں تھا، اِس لئے سیرت کی تالیف کی خاطر بمبئی کے ایک گوشہ میں بیٹھ کر عزلت گزیں ہونا چاہتے تھے، انہیں یہ بھی اندازہ ہوا کہ خرچ تخمینہ سے زیادہ بڑھ جائے گا، مئی کے آخر میں بمبئی جاتے ہوئے راستہ میں بھوپال اتر پڑے اور مولوی عبدالرزاق مصنّف البرامکہ کا بیان ہے کہ بیگم صاحبہ سے ملاقات کرکے اپنا یہ قطعہ پڑھا ؎
عجم کی مدح کی، عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرتِ پیغمبرِ خاتمؐ
خدا کا شکر ہے، یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
’سرکار عالیہ اِس قطعہ کو سن کر بیحد متاثر ہوئیں اور کہا کہ آپ مطمئن رہیں، جو مصارف ہوں گے میں دوں گی اور اِس کے متعلق حکم صادر کیا اور مولانا سے کہا کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا اور یقینا وہ اس ثواب کی مستحق ہوگئی جو اِس نیک کام کا مجھے ملے گا۔آپ کی صحت تو اِتنی خراب ہے کہ دو وقت کھانا نہیں کھاتے۔ آپ نہ رہے تو کتاب کیونکر پوری ہوگی۔ مولانا نے جواب دیا کتاب ضرور پوری ہوگی۔ میں نے دو آدمی تیار کر لئے ہیں، حمید الدین اور سید سلیمان پوری کریں گے۔‘ (سہ ماہی ’فکر آگہی‘ ایضاً)
’ایک طرف علامہ شبلی کا یہ عزم بالجزم تھا، دوسری جانب اُن کے روایتی حریف سرگرم تھے کہ سیرت کو کسی صورت چھپنے نہیں دیں گے لہٰذا سیرت کی پہلی جلد مکمل ہوگئی تو اُس کے چھپنے کے مشورے ہونے لگے، اِسی درمیان میں سیرت کا مقدمہ قلم بند ہوگیا۔
’ مولانا ابوالکلام آزاد کو اِسے مطالعہ کے لئے بھیجا گیا تو اُنہوں نے ’الہلال‘ کلکتہ میں چھاپ دیا تاکہ اہلِ نظر دیکھ سکیں کہ کتاب کس درجہ تحقیق و تدقیق سے لکھی گئی ہے، لیکن بعض مخالفین، جن کو یہ گوارہ نہ تھا کہ سرکارِ عالیہ کی سرپرستی میں سیرت النبیؐ لکھی جائے، انہوں نے اعتراضوں کی بوچھار کر دی اور ایڈیٹر ’’النجم‘‘ لکھنؤ نے اس پر نہایت سخت تنقید شائع کر دی، جو سرکارِ عالیہ تک پہنچائی گئی اور معاملہ نے اتنا طول پکڑا کہ علامہ شبلی بددل ہوکر وظیفۂ بھوپال سے خود دستبردار ہونے پر تیار ہوگئے۔ اس قضیہ کا یہ اثر مرتب ہوا کہ سیرت کی ابتدائی دو جلدیں مکمل ہونے کے باوجود علامہ کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکیں اور وہ سیرت کی ناتمامی کا داغ دل میں لے کر ۱۸ نومبر ۴ا۱۹ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ‘
(سید سلیمان ندوی ’’حیاتِ شبلی‘‘ صفحہ ۷۱۶-۷۱۷)
اِس سانحہ کی خبر ملی تو بیگم صاحبہ نے بہ حسرت فرمایا کہ ’فقیر بے نوا تو چل بسا، سلطان باقی ہے‘ علامہ کی وفات کے بعد جب اُن کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق سیرت اور دوسرے علمی منصوبوں کی تکمیل کے لئے دارالمصنفین قائم ہوا تو ریاست بھوپال کی طرف سے سیرت کی اشاعت کے لئے ملنے والی مالی امداد دارالمصنفین کو منتقل ہوجائے، اس کے لئے ادارہ کے ناظم مولانا سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴-۱۹۵۳ء) نے سلسلہ جنبانی شروع کیا، بھوپال ریاست کے پولیٹکل ایجنٹ لیفٹیننٹ کرنل سی اِی لوارڈ (LUARD) امداد جاری کرنے پر اس لئے معترض تھے کیونکہ دارالمصنفین شبلی اکادمی کے ناظم مولانا سید سلیمان ندوی اور منیجر مولوی مسعود علی خلافت تحریک سے وابستہ ہیں اور ادارہ کے ترجمان ’معارف‘ میں خلافت تحریک پر مضامین کی اشاعت ہورہی ہے۔
عہدِ سلطانی کی اِس کارروائی پر مشتمل ۱۹۲۲ء کی ایک فائل پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ بھوپال ریاست نمبر ۱۰۳ بنڈل نمبر ۷۵ برائے دریافت حالات شبلی اکادمی بمقام اعظم گڑھ کے حوالہ سے نیشنل آرکائیوز ریجنل آفس بھوپال میں محفوظ ہے، جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیٹکل ایجنٹ ریاست بھوپال سے دارالمصنفین کو مالی امداد کی فراہمی کے حق میں نہیں تھا، اُس نے ۱۷ مارچ ۱۹۲۱ء کو ریاست کے چیف سکریٹری حمید اللہ خاں کو خط لکھ کر دارالمصنفین کی مالی امداد کے بارے میں تفصیلات طلب کیں، اِس کے جواب میں بھوپال ریاست کے مہتمم تاریخ منشی امین زبیری نے وضاحت کی کہ اکادمی کی مجلس کو ملک کے سیاسی امور سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایک خالص علمی ادارہ ہے، جس کے ارکان علمی تصنیفات و مقالات خصوصاً سیرت النبی صلعم کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ اس کے ساتھ سالِ گزشتہ (۱۹۲۱ء) کی دارالمصنفین سے موصول تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی گئی، جس میں درج ہے کہ ’مذکورہ مجلس کو سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے، البتہ مسئلہ خلافت کی تاریخی و مذہبی حیثیت پر بعض اصحاب نے مضامین شائع کئے ہیں اور مولوی سید سلیمان صاحب ناظم ذاتی طور پر گزشتہ سال (۱۹۲۰ء) خلافت ڈپوٹیشن کے ممبر کی حیثیت سے یوروپ گئے تھے اور مولوی مسعود علی صاحب خلافت کمیٹی کے سکریٹری ہیں، اُن چند اصحاب نے جن کا تعلق دارالمصنفین سے ہے مسئلہ خلافت میں جس قدر تحریر و تقریر کے ذریعہ حصہ لیا، وہ اپنی پرائیوٹ پوزیشن میں ہے، دارالمصنفین شبلی اکادیمی کے لحاظ سے نہیں اور نہ ادارہ کا اِن تحریکات سے کوئی تعلق ہے۔ ادارہ کے ارکان میں زیادہ ایسے اصحاب ہیں، جو گورنمنٹ کے مقاصد کے برخلاف کسی قسم کی تحریک میں دلچسپی نہیں رکھتے، مثلاً نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی، مولوی حبیب الرحمن خاں شیروانی صدر الصدور امور مذہبی حیدرآباد، مولوی ضیاء الحسن علوی انسپکٹر مدارس عربیہ، مولوی مہدی حسن تحصیلدار منصف کانپور، منشی امین زبیری مہتمم تاریخ بھوپال۔‘ (فائل نیشنل آرکائیوز سے)
اِس کے ساتھ روداد مجلس دارالمصنفین (پروگریسیو رپورٹ) بابت ۱۹۲۰ء منسلک کی گئی، جس میں یہ عذر بھی شامل ہے:
’اِس سال ناظم کے ملک سے باہر رہنے سے علمی کام کی رفتار تیز نہیں رہی تاہم سیرت النبی کی دوسری جلد کی اشاعت کا کام ہوا اور تیسری جلد جس میں معجزات کا حصہ ہے، جلد مطبع جانے کے لئے تیار ہے اور حصہ چہارم منصبِ نبوت قریب تکمیل ہے، ’تاریخ اسلام‘ کا کام بدستور جاری ہے۔ امسال خلفائے عباسیہ کے زمانے تک کا حصہ مکمل ہوگیا ہے، مولوی سعید انصاری اِس خدمت کو انجام دے رہے ہیں۔ ’شعرالہند‘ کے لئے بہت سے قلمی تذکروں اور شعراء کے دواوین کی ضرورت ہے، جو لوگوں کے پاس متفرق طور پر موجود ہیں۔ اس کا بڑا حصہ مولوی عبدالسلام نے مرتب کیا ہے اور تھوڑا حصہ زیر تحریر بھی لاچکے ہیں، ’رقعاتِ عالمگیری‘میں جمع و ترتیب کی پیش رفت جاری ہے۔‘ (فائل نیشنل آرکائیوز سے)جاری
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS