ہندوستان کا تعلیمی منظر نامہ،جو ایک زمانے میں ترقی اور کامیابی کی نوید تھا،آج ایک سنگین تشویش کا شکار نظر آ رہا ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی تعداد میں اچانک کمی نے اس منظر کو بدلے ہوئے دکھایا ہے۔ حالیہ برسوں میں بچوں کے تعلیمی اندراجات میں جو کمی واقع ہوئی ہے،وہ نہ صرف ایک عددی تبدیلی ہے بلکہ ایک سنگین سماجی، اقتصادی اور ثقافتی مسئلہ بن چکی ہے۔ UDISE+ کی رپورٹ نے اس حقیقت کو مزید واضح کیا ہے کہ2023-24 کے دوران تقریباً 37 لاکھ بچوں کا تعلیمی اندراج کم ہوا ہے،جو کہ ایک تشویشناک صورت حال ہے۔ اس کمی کے پیچھے کئی عوامل ہیں،جن میں اعداد و شمار کے جمع کرنے کے نئے طریقے اور بچوں کے ڈپلی کیٹ اندراجات کا خاتمہ شامل ہے۔ لیکن یہ سب اس مسئلے کی سنگینی کو کم نہیں کرتے بلکہ ہندوستان کی تعلیمی ترقی کو درپیش چیلنج آشکار کررہے ہیں۔
یہ کمی محض اعداد و شمار تک محدود نہیں،بلکہ ہمارے بچوں کی زندگیوں کے مستقبل پر ایک گہرا اثر ڈالنے والی ہے۔ جب بچے اسکول سے باہر رہ جاتے ہیں تو ان کیلئے تعلیم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور ان کی شخصیت کی تعمیر،صلاحیتوں کی نشوونما اور مستقبل کے امکانات متاثر ہو جاتے ہیں۔ اس سنگین مسئلے کا اثر خاص طور پر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور درج فہرست ذاتوں کے بچوں پر زیادہ پڑ رہا ہے،جنہیں تعلیم کے میدان میں پہلے ہی کئی مشکلات درپیش ہیں۔
UDISE (یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن) ایک اہم ڈیٹا پلیٹ فارم ہے جسے وزارت تعلیم نے ملک بھر میں اسکولی تعلیم کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کیلئے قائم کیا ہے۔ اس کے ذریعے وزارت تعلیم اسکولوں کے اندراجات، تعلیمی کامیابیاں اور دیگر اہم معلومات جمع کرتی ہے۔ حالیہ UDISE+ رپورٹ میں پہلی بار انفرادی طلبا کے اعداد و شمار پر زور دیا گیا ہے،جس کا مقصد بچوں کے حقیقی اندراجات کی درست تصویر پیش کرنا ہے۔لیکن اس نئے طریقہ کار کے باوجودیہ حقیقت چھپتی نہیں کہ اس کمی کے نتیجے میں بچوں کی تعلیم پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر مسلم بچوں کا ڈیٹا خاصی تشویش کا باعث ہے۔2023-24کے دوران مسلم طلبا کی تعداد میں ایک لاکھ سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی ہے،جو ایک تشویشناک امر ہے۔ اقلیتی برادریوں کے بچوں کیلئے تعلیم تک رسائی اور اسکولوں میں اندراج کے مسائل پہلے بھی رہے ہیںاور اب یہ کمی اس حقیقت کو اورسنگین بناتی ہے کہ کس طرح اقلیتوںکے بچے تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کیلئے تعلیم کا حصول ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے اور ان کی تعلیمی حالت میں یہ کمی ملک کی مجموعی ترقی کیلئے ایک بڑا سوال ہے۔
اس کے علاوہ،درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے بچوں کے اندراج میں بھی کمی آئی ہے جو کہ تعلیمی مساوات کی طرف ایک اور بڑا قدم پیچھے کی جانب ہے۔ 2023-24 میں شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کے بچوں کی تعداد میں 12 لاکھ اور 2 لاکھ کی کمی آئی ہے۔ ان کمیوں کا اثر نہ صرف ان بچوں کی تعلیمی پوزیشن پر پڑے گا بلکہ ان کی سماجی و اقتصادی ترقی بھی متاثر ہوگی۔ جب تک یہ کمی پوری طرح سے حل نہیں کی جاتی،تب تک ملک کی تعلیمی اور سماجی ترقی میں خلل رہ سکتا ہے۔
یہ کمی صرف اعداد و شمار کا معاملہ نہیں ہے،بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ جب بچے اسکول سے باہر رہ جاتے ہیںتو ان کیلئے تعلیم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور ان کی زندگی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم بچوں کی تعلیم میں کمی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اقلیتوںکیلئے حکومت کی تعلیمی پالیسیوں میں سنگین کمی ہے۔ مسلمانوں کیلئے تعلیمی اداروں تک رسائی اور ان کیلئے اسکولوں میں مخصوص امداد کی ضرورت کو بہتر بنایا جانا ضروری ہے تاکہ ان بچوں کیلئے تعلیم کا دروازہ کھلا رہے۔
اس کمی کا اثر صرف تعلیمی نتائج پر نہیں بلکہ ملک کی معیشت پر بھی پڑے گا۔ ایک تعلیمی طور پر مضبوط نسل ہی ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیںتو ہم ان کے مستقبل کے ساتھ ساتھ ملک کے مستقبل کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ حکومت اور اسکول انتظامیہ کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو تمام بچوں کو،خاص طور پر اقلیتی گروپوں کے بچوں کو، تعلیم کی سہولت فراہم کریں۔
اسکولی اندراجات میں کمی ایک سنگین مسئلہ ہے جسے فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر مسلم بچوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے بچوں کیلئے حکومت کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان بچوں کو تعلیمی نظام سے باہر ہونے سے بچایا جا سکے۔ حکومت کی طرف سے+ UDISE کے ذریعے جمع کردہ ڈیٹا کو مزید بہتر بنایا جانا چاہیے تاکہ ہمیں حقیقت میں یہ پتا چل سکے کہ کتنے بچے تعلیم سے محروم ہیں اور ان کی تعلیم کیلئے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ملک کیلئے ایک سنگین چیلنج ہے جس کا اثر نہ صرف موجودہ نسل پر بلکہ آنے والی نسلوں پر بھی پڑے گا۔