ملک کو تباہ کردے گامذہبی شدت پسندی کا جنون
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس اختتام پذیر،
نئی دہلی (ایس این بی) : جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس مرکزی دفترجمعیۃعلماء ہند1- بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا، واضح رہے کہ حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے دستوراساسی کی دفعہ 44کے تحت نئے ٹرم کے عہدہ صدارت کا چارج لے لیا۔ اسی کے ساتھ موجودہ مجلس عاملہ تحلیل کر دی گئی۔ اب دستور کے مطابق صدر محترم نئی مجلس عاملہ نامزدکرکے بمشورہ عاملہ ناظم عمومی نامزد کریں گے ۔عنقریب جمعیۃ علماء ہند کے مجلس منتظمہ کے ہونے والے اجلاس میں نائبین صدور و خازن کا انتخاب ہو گا۔ اس میٹنگ میں ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی تشویشناک صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی و سماجی ایشوز اور عصری تعلیم ،لڑکے اور لڑکیوں کیلئے اسکول اور کالج کا قیام خاص کر لڑکیوں کیلئے دینی ماحول میں تعلیمی ادارے کا قیام اور اصلاح معاشرہ کے طریقہ کار نیز دفتری وجماعتی امورپر تفصیل سے غور و خوض ہوا۔ مجلس عاملہ کے ممبران نے زیر بحث آئے موضوعات پر کھل کر اپنی رائے وا حساسات کا اظہار کیااور کہاکہ جمعیۃ علماء ہند اپنی تاسیس سے ملک میں فرقہ وارانہ یکجہتی اور رواداری کیلئے سرگرم عمل اور کوشاںرہی ہے، اور ملک میں آباد تمام مذہبی لسانی اور تہذیبی اکائیوں کے درمیان پیار ومحبت کے جذبے کو فروغ دینے کیلئے ہر سطح پر کوشش کرتی آئی ہے اور کر رہی ہے۔ وہ آج بھی اسی بنیادی پالیسی اور مقصد کیلئے ملک کے دانشوروں، سماجی تنظیموںاور مختلف شعبہ ٔحیات سے تعلق رکھنے والے افراد سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے اثرات کا استعمال کرکے ملک کے بگڑتے ہوئے ماحول کو بچانے کی کوشش کریں، جس نے ملک کی یکجہتی ،وحدت اور سلامتی کے لئے شدید خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔
صدر جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ مذہب کے نام پر کسی بھی طرح کا تشدد قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مذہب انسانیت، رواداری، محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے، اس لئے جو لوگ اس کا استعمال نفرت اور تشدد برپا کرنے کیلئے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے ہیں اور ہمیں ہر سطح پر ایسے لوگوں کی مذمت اور مخالفت کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ نفرت اور فرقہ پرستی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر سیاستدانوں میں نفرت کی تخم ریزی کر کے اقتدار حاصل کرنے کی ہوس شدید تر ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے فرقہ پرستی اور مذہبی شدت پسندی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض سیاست دان اکثریت کو اقلیت کے خلاف صف آراء کرنے کیلئے مذہبی شدت پسندی کا سہارا لینے لگے ہیں، تاکہ آسانی سے اقتدار حاصل کر سکیں اورحکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنا لیا ہے، لیکن میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے ہی چلا کرتی ہے۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ ملک کسی خاص مذہب کے نظریے سے چلے گیا یا سیکولرزم کے اصولوں پر ۔ انہوں نے کہا کہ حالات بہت دھماکہ خیز ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں ہمیں متحد ہو کر میدان عمل میں آنا ہوگا۔ مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ ہمارا اختلاف اور ہماری لڑائی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں صرف ان طاقتوں سے ہے، جنہوں نے ملک کے سیکولر قدروں کو پامال کرکے ظلم و جارحیت کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں طرح طرح کے غیر ضروری ایشوز اٹھا کر مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے مگر امید افزا بات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔ ملک کے حالات بلاشبہ مایوس کن ہیں، لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ملک میں ایک بڑی تعداد انصاف پسند لوگوں کی موجود ہے جو فرقہ پرستی ،مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف نہ صرف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، بلکہ نڈر ہو کر حق کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ان فرقہ پرستوں کے خلاف عدالت کا بھی رخ کر رہے ہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آرہا ہے، یہاںدہرانے کی ضرورت نہیںہے، نئے نئے تنازع کھڑا کر کے مسلمانوں کو نہ صرف اکسانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، بلکہ انہیں کنارے لگا دینے کی منصوبہ بند شا زشیں ہو رہی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ مثال ہے۔ اس کیلئے ملک کا ایک بڑاانصاف پسند طبقہ انہیں تحسین پیش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں آگے بھی اسی طرح کے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ فرقہ پرست طاقتیںآئندہ بھی مختلف بہانوں سے اکسانے اورمشتعل کرنے کی کوششیں کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدو جہد آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھاتھا وہ ایسی نفرت اورظلم وستم کا ہندوستان ہرگزنہیں تھا۔ ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا، جس میں بسنے والے تمام لوگ نسل برادری اور مذہب سے اوپر اٹھ کر امن و آشتی کے ساتھ رہ سکیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ تعلیم کے فروغ پر جمعیۃ علماء ہند کی توجہ روز اول ہی سے رہی ہے ۔مدارس و مکاتب کے قیام کے ساتھ ساتھ عصری اور ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور ضرورت مند طلبہ کو جمعیۃ علماء ہند اور مولانا حسین احمد مدنی چیریٹیبل ٹرسٹ دیوبند2012 سے مسلسل میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے کو اسکالرشپ فراہم کر رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران 656 طلباء کو تقریبا ایک کروڑ روپے کی اسکالر شپ دی گئی، جس میں ہندو طلبابھی شامل تھے۔یہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند مذہب کی بنیاد پر کوئی کام نہیں کرتی۔ اسی اسکیم کے تحت اس سال بھی اسکالرشپ فراہم کی جائے گی۔ مولانامدنی نے کہا کہ ہمیں ایسے اسکولوں اور کالجوں کی اشد ضرورت ہے جن میں دینی ماحول میں ہمارے بچے اعلی دنیاوی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیاز کے بغیر حاصل کرسکیں ،انہوں نے قوم کے بااثر افراد سے اپیل بھی کی جن کو اللہ نے دولت دی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ الگ ایسے اسکول و کالج بنائیں جہاں بچے دینی ماحول میں آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں ،مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں جس طرح مفتی علماء حفاظ کی ضرورت ہے اسی طرح پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ کی بھی ضرورت ہے بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب مسلمان خاص کر شمالی ہندوستان کے مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے یہ ہمیں اچھی طرح سمجھناہوگا ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم ہی سے کیا جا سکتا ہے
جمعیۃعلماء ہند ملک کے ہر باشندے سے بھی یہ اپیل کرتی ہے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے جھوٹے اور گمراہ کن پروپیگنڈے کے دام میں نہ آئیںاور ملک کے ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں نیز اپنے آباء و اجداد کی قدیم روایتوں کو نہ چھوڑیںجمعیۃعلماء ہنداس موقع پر ان تمام سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں اور اداروں سے بھی پرزور اپیل کرتی ہے جو ملک میں سیکولرزم اور قانون کی بالادستی میں یقین رکھتے ہیں وہ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے خلاف متحد ہوجائیں ۔ جمعیۃعلماء ہند کا یہ پختہ یقین ہے کہ ملک کی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کی کلید باہمی اخوت ،رواداری اور مذہبی ہم آہنگی میں مضمر ہے اس کے بغیر ہمارا ملک ہندوستان ترقی کے راستے طے نہیں کرسکتا۔مجلس عاملہ کی کارروائی صدرمحترم کی دعاپر اختتام پزیرہوئی ، اجلاس میں صدرجمعیۃ کے علاوہ جن اراکین نے شرکت کی ان کے نام یہ ہیں ۔ مفتی سید معصوم ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند ، مولانا عبدالعلیم فاروقی نائب صدرجمعیۃعلماء ہند لکھنو، مولانا اسجدمدنی دیوبند،مولانا عبداللہ ناصربنارس ، مولانا اشہد رشیدی مرادآباد، مفتی غیاث الدین حیدرآباد، فضل الرحمن قاسمی ممبئی ، اس کے علاوہ بطورمدعوئین خصوصی مولانا محمد مسلم قاسمی دہلی، مولانا محمد خالد قاسمی ہریانہ ، مولانا عبدالقیوم قاسمی مالیگاؤں ، مولانا حبیب الرحمن قاسمی جودھپور، مولانا محمد راشدراجستھان ، مولانا بدراحمد مجیبی پٹنہ ، شامل ہوئے ۔
مذہبی منافرت اورفرقہ وارانہ بنیادپر عوام کو تقسیم کرنے کا خطرناک کھیل آخرکب تک:مولانا ارشدمدنی’
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS