فرقہ پرستی اور منافرت کی ساری حدیں پار کر دیں

0

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

’ساری حدیں پار کر دیں‘ یہ جملہ میرا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا ہے۔ گرچہ سپریم کورٹ کا یہ جملہ تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن پر ای ڈی کی چھاپہ ماری کے سلسلے میں ادا کیا گیا ہے، لیکن عدالت عظمیٰ کا ملک کے اندر بڑھتی فرقہ پرستی اور منافرت کے تعلق سے اس جملے سے ملتے جلتے ایسے جملے کئی بار سننے کو ملے اور مسلسل حکومت پر اپنی ناراضگی کا اظہار اور متنبہ کیا جاتا رہا ، لیکن جب اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو وہ ساری حدیں پار کر جاتا ہے اور اسی اقتدار کے نشہ میں چور اپنے حکمراں کی خوشنودی کے لئے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے جیسے لوگوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ عدالت کی بھی توہین کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کر رہے ہیں ۔ اس نشی کانت دوبے کی ہمت تو دیکھئے کہ وہ (سابق) چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سنجیو کھنہ تک کو ملک میں عدم اعتماد ، انتشار اور بد امنی پھیلانے اور خانہ جنگی کے لئے ذمہ دار قرار دے رہا تھا ۔ اس بدزبان نشی کانت دوبے نے سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی تک کو اس لئے نہیں بخشا کیونکہ انھوں نے بھی حکومت کے ذریعہ لائے گئے وقف ترمیمی قانون کو سرکار کی ایسی اسکیم قرار دیا تھا جو مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے لائی گئی ہے۔ ریاست ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے علی خاں محمود آباد کی صاف ستھری اور واضح انگریزی تحریر میں ’جس میں آپریشن سندور اور کرنل صوفیہ کی بہادری کی تعریف کو سراہتے ہوئے‘ بس اتنا لکھ دیا تھا کہ ماب لنچنگ، بلڈوزر اور نفرت پھیلانے والی سیاست کے شکار ہونے والوں دوسرے لوگوں کو بھی ملک کے دیگر عام شہریوں کی طرح عدم تحفظ کا احساس نہ ہو ۔ یہی بات فرقہ پرستوںکی آنکھوں میں شہتیر بن کر چبھنے لگی۔اس لئے ملک مخالف جو بات پورے فسانے میں نہیں تھی اس بات پر انھیں غدار وطن ہونے کا ایف آئی آر ہوا اور ان کی گرفتاری بھی عمل میںآئی۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا کہ جس نے علی خان کی انگریزی عبارت کو بخوبی سمجھا اور انھیں ضمانت دے دی۔افسوس کہ ملک کی بہادر بیٹی صوفیہ قریشی جس نے د شمن ملک کو اس کی دہشت گردی کا مُنھ توڑ جواب دے کر نہ صرف بہادری کی شاندار مثال قائم کی بلکہ ملک کے دفاعی نظام کے وقار کو بڑھایا ۔ اس بہادر فوجی بیٹی صوفیہ قریشی کے خلاف مدھیہ پردیش کا ایک وزیر وجے شاہ زہر اگلنے سے باز نہیں آیا ۔ اس معاملے میں بھی اگر مدھیہ پردیش ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی دخل اندازی نہیں ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ یہ بے حد حساس معاملہ بھی سرد پڑ جاتا اور اقتدار کی جانب سے ہوئی خاموشی کو ایسے فرقہ پرست اور آمرانہ پسند لوگ اپنی تعریف سمجھتے۔ وقف ترمیمی قانون کی کاروائی پر چونکہ ابھی سپریم کورٹ کی روک لگی ہوئی ہے ورنہ اس وقت پورے ملک میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی مساجد ، مدارس، درگاہوں ، خانقاہوں اور قبرستانوں کے انہدام اور قبضہ کا ننگا ناچ ہو رہا ہوتا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی کہ یہ قانون اسی مقصد کے حصول کے لئے ہی لایا گیا ہے ۔ ابھی وقف ترمیمی قانون نافذ نہیں ہو اہے تو عالم یہ ہے کہ آئے دن ملک کے مدرسوں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں ۔ ابھی اترا کھنڈ میں مدرسوں کے خلاف وہاں کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے 170 سے زائد مدارس کو بند کرا دیا ہے اور مزید 500 مدارس بند کرائے جانے کا امکان ہے۔ اتر پردیش میں بھی سیکڑوں مدارس کو غیر قانونی طور پر سیل کردیا گیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے ۔ اس کارروائی پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ ایسی کارروائی ملک کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر سنگین حملہ ہے ۔ایسے مسلم مخالف عمل و کردار کی پہچان رکھنے والے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے چند روز قبل یہ بھی دھمکی دی تھی کہ یہاں لوگ اذان کی آواز بھول جائیںگے۔ اس کے جواب میں مہاراشٹر حکومت نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کارروائی شروع کرتے ہوئے جوگیشوری اور اندھیری کی تقریباً 40 مساجد سے مائک سے اذان دینا بند کرا دیا ۔ ادھر بہار میں چونکہ الیکشن قریب ہے اس لئے اتر پردیش کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہاں کی زمین کو بھی فرقہ پرستی کے شعلوں سے گرم کرنے کی کوششیں بھی تیز ہو گئی ہیں ۔’آپریشن سندور‘ کو انتخابی ہتھیار بنانے اور پوری ریاست بہار میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کے لئے گھر گھر سندور بانٹنے کا جو منصوبہ تیار کیا گیا تھا وہ منصوبہ ہندو خواتین کی زبردست مخالفت کے بعد فی الحال ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ الیکشن کے اعلان ہوتے ہی اس منصوبہ کو کسی دوسری شکل میں سامنے لایا جائے ۔ گزشتہ 11مئی کی شام چھپرہ کے ٹاؤن تھانہ حلقہ کے گوریا ٹولہ کے کریم چک محلہ کے باشندہ ننھے قریشی کا بیٹا ذاکر قریشی کو ماب لنچنگ میں ہلاک کر دیا گیا۔ اس کا ایک بھائی زخمی ہوکر زیر علاج ہے ۔ ایسے واردا ت مسلسل سامنے آ رہے ہیں لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ فرقہ پرستوں کے اتر پردیش میں اتنے حوصلے بڑھ گئے ہیں کہ 24 مئی کو علی گڑھ کے لائسنس یافتہ 4گوشت تاجروں کو رنگداری نہیں دئے جانے پر نام نہاد گئو رکشکوں کے ایک ہجوم نے ہجومی تشدد کا نشانہ بنا کر شدید طور پر زخمی کر دیا ۔ان چاروں زخمیوں کو علی گڑھ کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے ۔ ان میں ایک کی حالت بے حد تشویشناک بتائی جا رہی ہے ۔

ایسے مسائل اور سانحات کو طشت از بام کرنے کی کوشش کرنے والے اشخاص اور میڈیا کو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے۔ انھیں طرح طرح سے خوف زدہ کیا جا رہا ہے ۔ چند روز قبل گجرات کے سب سے بڑے روزنامہ ’ گجرات سماچار‘ کے مالک باہو بلی شاہ کو منی لانڈرنگ کے الزام میں ای ڈی نے گرفتار کرکے جس طرح فرض شناس میڈیا کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ حکومت کسی بھی قیمت پر سچ کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ورنہ گجرات سماچار کے 80سالہ بزرگ اور بیمار شخص کو گرفتار کرنے کے پیچھے کیا منشا ہوسکتی ہے ۔ اس تعلق سے حزب مخالف رہنما راہل گاندھی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ’ گجرات سماچار‘ کو خاموش کرنے کی کوشش ایک اخبار کی نہیں بلکہ پوری جمہوریت کی آواز کو دبانے کی سازش ہے ۔ باہو بلی شاہ کی گرفتاری کی مذمّت کرتے ہوئے ’آپ ‘رہنمااروند کجریوال کی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سچائیوں کو بیان کرنے والے میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندی لگانے کی ایسی کوشش دراصل بی جے پی کی مایوسی کی علامت ہے جو سچ بولنے اور سوال کرنے والی ہر آواز کو خاموش کرنا چاہتی ہے یہ در حقیقت آمریت ہے ۔ نیوز 4 پی ایم، دی وائر وغیرہ جیسے دوسرے کئی یوٹیوب چینلوں پر جس طرح پابندیاں عائد کی گئیں یا کی جا رہی ہیں ۔ یہ سب آزادیٔ اظہار پر پہرے بٹھانے کی دانستہ کوشش ہے ۔ ہمارے ملک میں بظاہر بولنے کی تو آزادی ہے لیکن بولنے اور لکھنے کے بعد کی آزادی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ایسے غیر یقینی حالات سے خفا ہوتے ہوئے ملک کے دانشوران اور لیڈران بشمول کانگریس صدر ملکارجن کھرگے اگر یہ کہتے ہیں کہ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے تو شاید غلط نہیں کہتے ہیں ۔ آئے دن ملک کے سیکولرازم پر یقین رکھنے والے دانشوران اور دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں نیز ملک کی سچّی تصویر پیش کرنے والے میڈیا پر طرح طرح کی تادیبی کارروائی کئے جانے اور انھیں ای ڈی ، سی بی آئی وغیرہ جیسی ایجنسیوں کے ذریعہ ہراساں کئے جانے پر کھرگے نے یہاں تک کہہ دیا کہ تفتیشی ایجنسیوں کے غلط استعمال سے اس کی خود مختاری کو تباہ کر دیاگیا ہے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ اب دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ(نام نہاد) کرپشن کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے والی ایجنسیاں خود ہی کرپشن کا حصہ بن رہی ہیں اور آئے دن ان ایجنسیوں کے کارندے رشوت کے الزام میں گرفتا ر ہو رہے ہیں۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارا ملک پوری دنیا میں سب سے بڑے جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔صدیوں سے اس ملک میں مختلف مذاہب ، زبان ، رسم و رواج، ذات پات ،رنگ و نسل کے لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں اور مشترکہ تہذیب و ثقافت کے امین ہیں۔ لیکن افسوس کہ مٹھی بھر متعصب اور فرقہ پرستوں کو ملک کی شاندار روایت سے صرف اس لئے چڑ ہے کیونکہ ان کے سیاسی مقاصد (ایجنڈوں) کے حصول میں رخنہ پڑرہاہے ۔ ملک کے بنیادی مسائل پر برسر اقتدار حکومت سے اگر کوئی فرض شناس میڈیا سوالات کرتا ہے، تنقید کرتا ، ایسے ناگفتہ بہ حالات کی مذمت کرتے ہوئے اپنے صحافتی فرائض نبھاتا، تو شاید ایسی بری حالت نہیں ہوتی، لیکن افسوس کہ ملک کا میڈیا،عام طور پر اپنے کروڑپتی مالکان کے ٹیوننگ پر صحافت کی ساری اخلاقیات ، صحافتی تقاضوں اور معیار کو در کنار کرتے ہوئے رقص کرتا نظر آرہاہے ۔ جس کی مذمت کا سلسلہ پہلے ببانگ دہل ہوتاتھا اور اب دبی زبان سے کیا جارہاہے ۔

ایسے نامساعد حالات میںاب ضرورت ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو وقت اور حالات کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے ہمت اور حوصلے کے ساتھ ان سخت ترین حالات کے تدارک کے لئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانشورانہ ، عالمانہ ، مدبرانہ حکمت عملی کے ساتھ مختصر مدتی اور طویل مدتی منصوبے تیار کیا جائے اور ان پر بہت سنجیدگی سے عمل بھی ہو۔ آزادی کے بعد ہم چندسیاسی پارٹیوں کے بھروسے اور ان کے جھوٹے وعدوں پر تکیہ کئے رہے ۔ اپنی بقا اور تشخص کے لئے کبھی کوئی سنجیدہ اور بڑا فیصلہ یا اقدام نہیں کیا، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے لئے اور اپنے آنے والی نسل کی بقا کے لئے جاگیں ۔ وقت ہمیشہ یکساں نہیںرہتا اور یہ وقت کب کون سا رخ اختیار کر لے ، یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم منظم اور متحد ہو کر سب سے پہلے اپنے درمیان کی ذات پات کی خلیج کو ختم کر یں ۔ موجودہ حالات میں یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے بعد ہمارے مذہبی رہنما و علما وقت اور حالات کی نزاکت اور تقاضوں کے پیش نظر اپنے مسلکی اختلافات کو ٹھنڈے بستے میں ڈال کر اسلامی نظریہ حیات کو اپناتے ہوئے مسلمانوں کے اندر اتحادو اتفاق پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ اگر موجودہ حالات کی سنگینی میں بھی ہم اپنے ذاتی مفادات سے اوپر نہیں اٹھ سکتے اور مفاہمت کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تو ہم اور ہماری آنے والی نسلوں کے سامنے کیسا مستقبل ہوگا اس کا تصور ہی لرزہ خیز ہوگا ۔اس لئے کہ ماضی جہاں ہمیں اسپین کی یاد دلاتا ہے ، وہیں حال فلسطین کے خاک و خون میں ڈوبا ہوا منظر نامہ ہمیں خون کے آنسو رُلاتا ہے ۔ فلسطین کایہ منظر نامہ روز ہمارے مسلم اکثریت والے 57 ممالک دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔ ان مسلم ممالک کے سربراہوں کی ایک چھوٹے سے انسان اور انسانیت دشمن ملک اسرائیل کے سامنے کیا اوقات ہے اس کا اندازہ بہت سارے واقعات کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یکم جون کو منعقد ہونے والے فلسطینی اتھارٹی کی میزبانی میں رام اللہ میں ایک اجلاس میں شرکت کرنے پہنچے مصر ، سعودی عرب ، قطر ، اردن ، امارات اور ممکنہ طور پر ترکیہ وزرائے خارجہ کو رام اللہ جانے نہیں دیا گیا ۔ جہاں وہ غزہ میں گزشتہ ایک سال سے جاری صہیونی حیوانیت اور بربریت کے تعلق سے ایک اہم سربراہی اجلاس میں شرکت اور گفت و شنید کے بعد نیو یارک میں آئندہ منعقد ہونے والے دو ریاستی حل کیلئے عالمی کانفرنس میں کوئی اہم فیصلہ لیتے۔ لیکن ظالم و جابر ملک اسرائیل کے حکمراں نے ان تمام مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کو ذلیل و رسوا کر واپس بھیجے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی ۔ اس سے بڑا المیہ ان مسلم ممالک کا کیا ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں بھی ان بزدل مسلم ممالک سے کسی طرح کی توقع رکھنا فضول ہے اور ہمیں خود اپنی مثبت راہ بنانی ہے ۔

( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS