پروفیسر اسلم جمشید پوری
جب سے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کازمانہ آیا ہے،اردو میں ایک انقلاب آگیا ہے۔اس انقلاب نے اردو کو سیراب کر دیا ہے۔ہر طرف آن لائن پروگرام اور انٹرنیٹ کی دھوم ہے۔اخبارات کے ای ایڈیشن اب موبائل پرپڑھ لیے جاتے ہیں۔ موبائل،لیپ ٹاپ،ٹیبلیٹ وغیرہ نے گھڑی،خط،ٹی وی، ریڈیو جیسے میڈیم کو بیکار کر دیا ہے۔ کتابت اور خطاطی کے لالے پڑ گئے ہیں۔کمپیو ٹر نے ان کو پرانے زمانے کی چیزیں ثابت کر دیا ہے۔
اردو میں بھی اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔قلم کا استعمال بہت کم رہ گیا ہے۔اب بہت سے قلمکار کمپیوٹر کا بلاواسطہ لکھنے میں استعمال کر نے لگے ہیں۔مائوس نے اہمیت اختیا ر کر لی ہے۔حروف سے اب وہ جذباتی رشتہ نہیں رہا ہے جو ہوتا تھا۔الفاظ اپنا ایک پس منظر،معنی،مفہوم اور انسلاک رکھتے تھے۔قلم سے کاغذپر لفظوں کو لکھنے سے ایک خوشبو سی آتی تھی۔اپنی تحریر سے ایک لگائو اور محبت ہوتی تھی جو آج کے برق رفتار زمانے میں عنقا ہوتی جارہی ہے۔ کاپی، کٹنگ، پیسٹنگ میں وہ لگائو نہیں بنتا۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اردو میں بہت ترقی ہوئی ہے۔اردو میں خوبصورت اور معیاری گیٹ اپ کے ساتھ اب کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔پہلے پاکستان میں عمدہ اور پر کشش کتابیں شائع ہوتی تھیں اور ہم لو گ حسرت سے دیکھتے رہ جاتے تھے،لیکن اب یہاں بھی دیدہ زیب اور معیاری کتابیں شائع ہوتی ہیں۔اردو میں کئی روزنامہ اخبارات،ملٹی ایڈیشنل شائع ہوتے ہیں۔خوبصورت رسائل بھی میدان میں آ گئے ہیں۔پہلے پاکستان کے رسائل ’فاصلہ‘ اور ’رابطہ‘ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے، لیکن اب ہمارے کئی رسائل ’اردو دنیا‘،خواتین دنیا‘، ’بچوں کی دنیا‘،’ایوانِ اردو‘،’امنگ‘،’ فروغ ِ ادب‘،’باز دید،‘’ قومی زبان‘،’باغیچہ،‘’گل بوٹے‘،’روشن ستارے‘ وغیرہ کم خوبصورت اور معیاری نہیں ہیں۔
پہلے اردو میں تخلیق کار کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔جیسا کہ مغرب میں آج بھی ہے،وہاں آج بھی ناول یا کہانیوں کی کتاب لاکھوں میں فروخت ہوتی ہے اور تخلیق کار کو سر پر بٹھایا جاتا ہے،مگر اردو میں جب سے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا زمانہ آیا،ناقد کا قدادب میں سب سے بلند ہوتا گیا۔شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ اگر کسی کتاب کی تعریف کر دیتے تو اس کتاب کی لوگوں کی نظر میں اہمیت بڑھ جاتی تھی۔آہستہ آہستہ ادب میں تخلیق کاروں کی وقعت گھٹتی گئی۔ناقد کی اہمیت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا۔ ناقدین کوئی بھی فرمان جاری کرتے،بے چارے تخلیق کاراس کو نہ صرف مانتے بلکہ اس پر عمل پیرابھی ہوتے۔ اپنی کتاب پر تنقید نگار سے لکھوانے کے لیے ان کی خوشامد کرتے،پیسے بھی دیتے(ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا تھا)۔ کئی کئی ماہ اور کبھی کبھی تو برسوں انتظار کرتے۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے،مگر اب زمانہ بدل چکا ہے۔سب کچھ الٹا پلٹا ہو گیا ہے۔
سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے زمانے میںخط لکھنے کا رواج بالکل ختم ہوگیا ہے۔اس سے دو بڑے فائدے ہوئے ہیں کہ ایک تو خط لکھنا اب بالکل فری ہوگیا، دوسرے وقت کی بچت ہوگئی۔ اب سیکنڈوں میں بات، جہاں چاہے وہاں پہنچ جاتی ہے۔اصل میں جب سے خط کی جگہ میل نے لی ہے، سماج میں زبر دست تبدیلی آگئی ہے۔اب اردو میں بھی 90فیصد لوگوں کے پاس ای میل ایڈریس ہے اور سبھی لوگ سوشل میڈیا، کم از کم وہاٹس ایپ اور فیس بک استعمال کرتے ہیں۔اب تخلیق کار اورمرتب حضرات اپنی کتاب کا مسودہ ای میل یا وہاٹس ایپ پر ارسال کر دیتے ہیںاور ہر دوسرے تیسرے دن میسج یا فون سے مضمون یا تحریر کا تقا ضا کر تے ہیں۔
بے چارے ناقد کا بہت برا حال ہے۔مسودہ بھیجنے والے دو طرح کے لوگ ہو تے ہیں۔ایک تو دوست یا تعریفی جملے کہنے والے،جن کو ٹالا نہیں جاسکتا۔اب ناقد پوری کتاب کا پرنٹ نکالتا ہے،اس کے بعد مسودہ پڑھتا ہے،پھر مضمون لکھتا ہے،اس کے بعد اسے کمپوز کرواتا ہے،کمپوزر کے پیسے اپنی جیب سے ادا کرتا ہے اور مضمون ای میل کر تا ہے۔صاحب ِ مسودہ سے وہ کمپوزنگ کے پیسے بھی نہیں مانگ پاتا۔دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں،جوناقد کی شہرت سے متاثر ہو کر مسودہ بھیج دیتے ہیں۔ان کے پاس یہ بھی جاننے کی فرصت ہوتی ہے نہ فہم کہ یہ مسودہ کیساہے،یہ ناقد اس کے لیے مناسب ہوگا کہ نہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ناقد ہے تو پھر ہر مسودہ پر لکھ سکتا ہے اور وہ کچھ بھی لکھے،وہ متبرک ہی ہوگا۔ایسے لوگوں کو منع بھی کیا جا سکتا ہے مگر منع کرنے کو تاخیر جب ہو تی ہے تو صاحب مسودہ ناقد کے کسی قریبی کی سفارش لے آتا ہے۔ بے چارے ناقد کو اس پر بھی لکھنا پڑتا ہے۔
ناقد پر ایک اور مصیبت آتی ہے کہ وہ کتاب اور مصنف کی تعریف ہی کرتا ہے۔اگر وہ حقیقتاً تنقید کر دے،سچ سچ لکھ دے،کچھ مشورے دے دے تو غضب ہو جا تا ہے۔اس ناقد کی پھر خوب برائیاںہوتی ہیںاور کتاب سے اس کی تحریر غائب ہوتی ہے۔حد تو تب ہوجاتی ہے جب کتاب پر کسی ایرے غیر ے کا تعریفات سے پُر مضمون شامل ہوتا ہے۔
ایک بار میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ایک معروف شاعر، اللہ انہیں جنت نصیب کرے،نے میرے پاس کہانیوں کا مجموعہ ارسال کیا۔انہیں زعم تھا کہ وہ اچھی شاعری کی طرح افسانے بھی اچھے لکھ لیتے ہیں۔ایک آدھ افسانے میری نظر سے گزرے تھے، جو ٹھیک ٹھاک تھے۔ مجموعہ میں کئی افسانے خراب تھے،وہ فن افسانہ کے حساب سے بھی ٹھیک نہیں تھے۔ایک فکشن ناقد کے طور پر میری ذمہ داری ہے کہ خراب افسانوں کی نشاندہی کروں اور صاحبِ مسودہ کو کچھ مشورے دوں،میں نے ایساہی کیا اور ایک مختصر مضمون ان کو بھیج دیا،وہ فون پر بحث کرنے لگے اور آخر کار جب کتاب آئی تو میرے مضمون کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔اس پرستم دیکھئے مجھے کتاب کاایک نسخہ میرے جاننے والے کے ہاتھ سے بھجوایا۔
غلطی سے میری ایک کتاب شعری تنقید پر آگئی۔پھر کیا تھا،شاعری کے مجموعوں کی یلغا ر ہونے لگی اور میری شعری تنقید کے قصیدے پڑھے جانے لگے۔تعریف کے ڈھیر تحریر اور تقریر میں لگائے جانے لگے۔جھوٹی تعریفوں سے تنگ آکر میں نے شعری مجموعوں کو پڑھنا اوران پر لکھنا شروع کردیا تاکہ اور نہ لکھنا پڑے۔مگر بقول غالب: ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔۔۔‘،شعری مسودوں کی پہلے سے زیادہ بھر مار ہوگئی۔
اب بیشتر شعرای میل یا وہاٹس ایپ کے ذریعہ اپنی دس بیس غزلیں اور نظمیں بھیج دیتے ہیںاور بار بار طویل مضمون لکھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔بے چارہ ناقد ان کا پرنٹ نکلوائے،غور سے انہیں پڑھے،مضمون لکھے اور ٹائپ کرے یا کسی سے کرائے اور ان کو بھیج دے۔کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کئی کئی سال کتا ب شائع نہیں ہوتی اور ہوتی بھی ہے تو بار بار کہنے کے بعد کتاب کا ایک نسخہ ملتا ہے۔
آج ناقد کی ناقدری کی حد ہوگئی ہے۔بہت سے یوں ہی سے تخلیق کار وہاٹس ایپ اور ای میل پر اپنی تخلیقات ارسال کر دیتے ہیں۔ان میں تو بعض فیس بک پر چھپنے والے مبتدی تخلیق کار ہو تے ہیں۔یہاں کے قارئین اور تبصرے کرنے والے ناقدین الگ ہوتے ہیں۔یہاں زیادہ تر لوگ بغیر پڑھے ’’بہت خوب‘‘، ’’ماشاء اللہ‘‘، ’’شاندار‘‘، ’’ کیا بات ہے‘‘،’’ واہ واہ ‘‘لکھ دیتے ہیں۔ان کمینٹس کو اپنی تعریف سمجھنے والے معصوموں کی کمی نہیں۔ غصہ تو تب آتا ہے جب ایسے تخلیق کار جب اپنا مسودہ کسی ناقد کے پاس بھیج دیتے ہیں۔تخلیقات بھیجنے والا کوئی قریبی،دوست،رشتہ دار یا تعلق دار ہوتو ناقد کے لیے مصیبت آجاتی ہے۔اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ تخلیقات کا پرنٹ نکالے اور ان تخلیقات کی نوک پلک درست کرے۔ انہیں تخلیقات کے دائرے میں لائے،پھر ان کی تعریف میں ایک لمبا چوڑا مضمون لکھے،اسے کمپوز کرائے اورصاحب ِ تخلیق کو بھیجے۔۔۔بے چارہ ناقد!!
[email protected]