ہندوستان کی کم و بیش تمام جماعتیں سیاست میں جرائم پیشہ افراد کے داخلہ پر روک لگانے کی بات تو کرتی ہیں لیکن کسی بھی جماعت میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں آگے قدم بڑھائے اور مجرمانہ پس منظر رکھنے والے افراد سے اپنا ناطہ توڑ لے۔ بدعنوانی، رشوت ستانی یا دوسرے اخلاقی جرائم میں ملوث اپنی ہی جماعت کے لیڈروں کا کردارکم کیے جانے تک کی بھی یہ سیاسی جماعتیں ہمت نہیں جٹاپاتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاست میں جرائم پیشہ اور
قانون کو مطلوب افرا د کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جو گاہے بگاہے اس سمت میں کوئی نہ کوئی ایسی ہدایت جاری کرتا ہے جس پر عمل درآمد سے سیاست کی تطہیر بھی ہوتی رہتی ہے۔
آج بھی سپریم کورٹ نے ایسی ایک ہدایت جاری کی ہے جس پر اگر ایمانداری سے عمل درآمد کیا گیا تو سیاست کی جرائم کاری میں کچھ نہ کچھ ضرور کمی آئے گی۔منگل کو جسٹس روہنگٹن پھلی نریمان اور جسٹس بی آر گوائی پر مشتمل سپریم کورٹ کی دو نفری بنچ نے اس سلسلہ میں اپنی سابقہ رہنما ہدایت میں ترمیم کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان کرنے کے دو دنوں کے اندر اندر ان سے متعلق تمام معلومات شیئر کریں۔ عدالت نے اپنے
سابقہ فیصلے میں امیدواروں کے مجرمانہ ریکارڈ عام کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو دوہفتے کا وقت دیا تھا لیکن اب اس میں ترمیم کرکے اسے صرف دو دن کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے بی جے پی اور کانگریس سمیت ان 10 سیاسی جماعتوں پر جرمانے بھی عائد کیے ہیں جنہوں نے گزشتہ سال ہوئے بہار اسمبلی انتخاب میں اپنے متعلقہ امیدواروں کے خلاف مجرمانہ معاملات اور فوجداری مقدمات کو عام نہیں کیاتھا۔بی جے پی، کانگریس، سی پی آئی، بی ایس پی، جے ڈی یو،
آر جے ڈی، آر ایل ایس پی، ایل جے پی پر ایک ایک لاکھ روپے اور سی پی آئی ایم و این سی پی پر5-5لاکھ روپے کا جرمانہ لگایاگیا ہے۔
عدالت نے اس معاملے میں مقننہ کی سرد مہری اور غفلت پر بھی اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت قانون بنانے والوں سے کئی بار کہہ چکی ہے کہ وہ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھیں اور نیند سے بیدا رہوںلیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ لمبی نیند میں ہیں اور ا ن کے کان بند ہیں۔ عدالت کی اپیلیں بہرے کانوں تک نہیں پہنچ پائی ہیں اور سیاسی جماعتیں بیدار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
عدالت نے یہ بجا طور پر کہا ہے کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔سیاست سے جرائم کے خاتمہ کا کام در اصل مقننہ کا ہے اوریہ قانون سازی کا متقاضی ہے، عدالت اس معاملے میں رہنمائی کرسکتی ہے اور مشورے دے سکتی ہے، زیادہ سے زیادہ وہ قانون بنانے کی اپیل بھی کرسکتی ہے لیکن قانون بنانے والے عدالتی اپیل کو اَن سنا کررہے ہیں۔
ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس کے مطابق 2019 میں منتخب ہوکر پارلیمنٹ پہنچنے والے 539معزز ارکان کے43فیصدیعنی 233ارکان مجرمانہ مقدمات میں ماخوذ ہیں۔جن میں سے116ارکان کا تعلق بھارتیہ جنتاپارٹی سے اور 29کانگریس، 13جے ڈی یو،10ڈی ایم کے اور9ارکان ترنمول کانگریس کے ہیں۔2014میں ایسے ارکان کی تعداد 185تھی یعنی گزرتے وقت کے ساتھ مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں کے ایوان قانون سازیہ میں پہنچنے کی رفتار تیز
ہوگئی ہے۔پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 4896 ہے جن میں سے تقریباً 2ہزار عوامی نمائندوں یا قانون سازوں کے خلاف مقدمات زیرالتوا ہیں۔ قانون سازوں پر جن جرائم کیلئے مقدمات چل رہے ہیں، ان میں قتل، اقدام قتل جیسے سنگین الزامات نیز سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے وغیرہ شامل ہیں۔
صورتحال اتنی سنگین ہے کہ عدالت کی رائے کے مطابق اسے بہتر بنانے کیلئے ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے ا ور یہ سرجری عدالت کے دائرۂ کار سے باہر ہے۔اس کیلئے عدالت بار بار قانون ساز ی پر زور دیتی ہے۔ اس معاملے میں نئے قانون کی ضرورت یوں ہے کہ عوامی نمائندگی قانون 1951 اور اس کی متعلقہ دفعات کے تحت مصدقہ اور سزایافتہ مجرم ہی انتخاب لڑنے کیلئے نااہل قرار پاتا ہے۔ اس موجودہ قانون میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے کہ مجرمانہ مقدمات میں ماخوذ
افراد کو انتخاب لڑنے سے روکا جاسکے۔ سیاسی پارٹیاں قانون کی اسی سقم کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور ایوان میں اپنی عددی برتری کیلئے ایسے ہی افراد کو ٹکٹ دیتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح طاقت اور دولت کے بل پر انتخاب جیت سکیں۔
سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیاں انتخابی فوائد کے محدود دائرے سے باہر نکل کر ملک و معاشرہ پر پڑرہے اس کے مضر اثرات کے بارے میں بھی غور کریں اور اپنی ذمہ داری نبھائیں۔امور حکومت چلانے کیلئے مجرموں کی نہیں بلکہ ایسے افراد کی ضرورت ہے جونیک نام اور ایما ندار ہوں۔
[email protected]
سیاست میں جرائم پیشہ افراد
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS