سوربھ جین
دہلی میں ایک 9سال کی معصوم کے ساتھ عصمت دری کے واقعہ نے ملک کو پھر بے چین کردیا ہے۔ شمشان میں پہلے عصمت دری، پھر قتل اور وہیں آخری رسومات ادا کردینے کا یہ واقعہ انتہائی خوفناک ہے۔ پھر وہی سوال اٹھنے لگا ہے کہ یہ سب آخر کب تک؟ اسی طرح مددھیہ پردیش کے ودیشہ میں ایک 12سال کی معصوم کی عصمت دری کے بعد قتل کرکے لاش کو پیڑ پر ٹانگ دینے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ ایسے واقعات پر ظالمانہ شکل میں ہی سامنے آرہے ہیں۔ اب یہ معاشرہ بچیوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والے ان واقعات زیادہ چرچہ اس لیے بھی نہیں کرتا، کیوں کہ یہ خبریں عام خبروں کی طرح عام ہوگئی ہیں۔ ایک واقعہ کو سرخیاں ملنے پر مخالفت کی مہم چلا دی جاتی ہے اور کچھ ہی دنوں میں سب بھول جاتے ہیں۔ جرم کا ہر واقعہ اپنے پیچھے انصاف کے سوال چھوڑ جاتا ہے، پھر بھی ہم ان کا جواب کیوں نہیں تلاش کرپاتے؟
کیرالہ میں 17سالہ لڑکی کا 38لوگوں کے ذریعہ جنسی استحصال کا معاملہ ہو یا بدایوں، ہاتھرس میں رونما ہونے والے واقعات، سب انہیں سوالات کو اُبھارتے ہیں جو 2012میں دہلی میں نربھیا کے ساتھ ہوئی درندگی کے بعد اٹھے تھے۔ تقریباً 9سال پہلے ہوئے اس واقعہ پر عوامی غصہ کے بعد تشکیل دی گئی جسٹس جے ایس ورما کمیٹی کی سفارش پر انسداد عصمت دری قانون بنا تھا۔ ساتھ ہی نربھیا فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 2019میں پاکسو قانون میں ترمیم کرکے 12سال سے کم عمر کے بچوں کے جنسی استحصال پر سزائے موت کا التزام کیا گیا۔ یہ وہ قانونی کوشش تھی، جس کا ہدف سخت سزا کے خوف سے جرم کو روکنا اور مجرمین کو سزادینا تھا۔ لیکن سوال ہے کہ کیا گزشتہ 9برسوں میں ان قوانین نے خاتون جرائم کو روکنے میں معنی خیز کردار ادا کیا ہے؟
یہ سوال اس لیے اٹھ رہا ہے کہ نربھیا معاملہ کے بعد خاتون جرائم کے اعدادوشمار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی حکومت نے 2015سے 2019کے دوران ملک میں عصمت دری کے 1.71لاکھ معاملات درج ہونے کی معلومات دی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان میں 2019میں ہر دن عصمت دری کے 88، یعنی کل 32,033معاملے درج ہوئے۔ گزشتہ دس برسوں میں عصمت دری کے واقعات 44فیصد بڑھ گئے ہیں۔ 2019 میں آدھے سے زائد معاملات پانچ ریاستوں راجستھان، اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور کیرالہ کے تھے۔ یہ وہ معاملات ہیں جو پولیس تھانوں میں درج کرائے گئے۔ سماجی حیثیت یا دیگر اسباب کے ڈر سے جو جرم ریکارڈ میں درج نہیں کرائے گئے، وہ الگ ہیں۔ مدھیہ پردیش ملک کی پہلی ریاست تھی، جس نے مندسور میں اسکولی طالبہ کی عصمت دری کے بعد پھانسی کی سزا کا التزام کیا تھا۔ مگر آج اسی مدھیہ پردیش میں 12سالہ معصوم سے عصمت دری اور اس کے قتل کے بعد اس کی لاش پیڑ پر ٹانگ دینے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔
گزشتہ سال کورونا وبا کے دور میں بھی جرم کی اس نفرت انگیز شکل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ محسوس ہوا تھا کہ اس دور میں انسانیت دوبارہ زندہ ہوجائے گی لیکن لاک ڈاؤن کے وقت بھوپال میں نابینہ خاتون کے ساتھ عصمت دری کے واقعہ نے اس بھرم کو توڑ دیا۔ انہی دنوں جھارکھنڈ میں دُمکا میں اَن لاک ہونے کے بعد گاؤں لوٹ رہی ایک 16سالہ طالبہ کی 10نوجوانوں نے اجتماعی آبروریزی کی۔ اترپردیش میں شاملی ضلع میں راشن دینے آئے دکان دار نے گھر میں گھس کر خاتون کی عصمت دری کی۔ نوئیڈا میں 8سال کی معصوم بچی سنگین حالت میں سلارپور گاؤں کے پاس جھگیوں میں ملی۔ ایک لمبی فہرست ہے جو عصمت دری کے لاتعداد واقعات کو بیان کرتی اور بتاتی ہے کہ قانون بنادینے سے جرم میں کمی نہیں آتی۔
منسٹری آف وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعہ لوک سبھا میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں نے نربھیافنڈ کے تحت مختص کل بجٹ کے 20 فیصد سے بھی کم حصہ کا استعمال کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 2015 سے 2018 کے دوران مرکزی حکومت کے ذریعہ نربھیا فنڈ میں 854.66 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جس میں سے محض 165.48 کروڑ روپے ریاستوں اور مرکزکے زیرانتظام ریاستوں نے خرچ کیے۔
عام تصور ہے کہ سخت قوانین جرم کو روکنے میں مؤثر کردار نبھائیں گے۔ اسی کے سبب انسداد عصمت دری قانون بنا اور پاکسو قانون میں ترمیم کی گئی، لیکن ایسے جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ سوال ہے کہ قانون میں سخت سزا کا التزام، جلد انصاف کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام، نربھیا فنڈ میں ہر سال رقم مختص کرنے کے بعد بھی حالات بد سے بدتر کیوں ہوتے جارہے ہیں؟
عصمت دری کے معاملات میں سزا کی شرح اب بھی محض27.2فیصد ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2018 میں عصمت دری کے 1,56,327 معاملات میں مقدمے کی سنوائی ہوئی۔ ان میں سے 17,313 معاملات میں سنوائی پوری ہوئی اور صرف 4,708قصورواروں کو سزا ہوئی۔ 11,133معاملات میں ملزم بری کیے گئے، جبکہ 1,472 معاملات میں ملزمین کو الزام سے بری کیا گیا۔ کسی معاملہ میں الزام سے بری تب کیا جاتا ہے کہ جب الزامات طے نہ ہوں۔ وہیں ملزمین کو الزام سے بری تب کیا جاتا ہے جب مقدمے کی سنوائی پوری ہوجاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ 2018میں عصمت دری کے 1,38,642 معاملے زیرالتوا تھے۔ عصمت دری کے معاملات میں سزا کی شرح 2018میں گزشتہ سال کے مقابلہ کم ہوئی۔2017 میں سزا کی شرح 32.2فیصد تھی۔
ملزم قانون کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جس سے شہری معاشرہ کا جوڈیشیل سسٹم سے اعتماد اٹھتا نظر آرہا ہے۔ جوڈیشیل سسٹم ججوں کے خالی عہدوں کے بحران سے نبردآزما رہا ہے، عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے، انصاف کی رفتار دھیمی بنی ہوئی ہے، ایسے میں مجرمانہ رجحان کے لوگوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ انسداد عصمت دری قانون میں ایسے معاملوں کی سنوائی فاسٹ ٹریک عدالتوں میں کرنے کا التزام ہے۔ اس کے لیے ایک ہزار 23 خصوصی فاسٹ ٹریک عدالتوں کی ضرورت ہے۔ وزارت قانون کے محکمہ انصاف نے اس پر 767.25کروڑ روپے کے خرچ کا اندازہ لگایا ہے۔ جب تک یہ خصوصی عدالتیں روبہ عمل نہیں آجاتیںاور نتائج میں قانون میں موجود دفعات کے تحت آنے شروع نہیں ہوجاتے، تب تک اس قانون کی اہمیت ثابت نہیں ہوسکے گی۔
لاء کمیشن کی ایک رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ فی دس لاکھ آبادی پر ججوں کی تعداد تقریباً 50ہونی چاہیے۔ یعنی عہدوں کی تعداد بڑھا کر اعدادوشمار کے حساب سے ملک میں 65ہزار ماتحت عدالتوں کی ضرورت ہے، لیکن اس وقت 15ہزار عدالتیں بھی نہیں ہیں۔ فاسٹ ٹریک عدالتوں کی تشکیل کے ساتھ عدالتوں میں خالی عہدوں کو بھرنا بھی ضروری ہے۔
منسٹری آف وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعہ لوک سبھا میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان کی سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں نے نربھیافنڈ کے تحت مختص کل بجٹ کے 20فیصد سے بھی کم حصہ کا استعمال کیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 2015سے 2018 کے دوران مرکزی حکومت کے ذریعہ نربھیا فنڈ میں 854.66کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جس میں سے محض165.48کروڑ روپے ریاستوں اور مرکزکے زیرانتظام ریاستوں نے خرچ کیے۔ نربھیا فنڈ میں خاص طور پر ایمرجنسی رسپانس سپورٹ سسٹم، مرکزی متاثرین معاوضہ فنڈ، خواتین اور بچوں کے خلاف سائبرجرائم کی روک تھام، ون اسٹاپ اسکیم، خاتون پولیس والنٹیئر جیسی اسکیموں پر خرچ کا التزام ہے۔ مگر کئی ریاستیں تو ایسی ہیں جنہوں نے اس فنڈ کا ایک بھی روپیہ ان اسکیموں پر خرچ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ان ریاستوں میں مہاراشٹر، منی پور اور مرکز کے زیرانتظام ریاست لکشدیپ ہیں۔ ایسے میں اس فنڈ کا جواز کیا رہ گیا؟ جرائم سے پاک معاشرہ کے لیے قانون پر مؤثر عمل درآمد ضروری ہے۔ اس راہ میں آرہی تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
(بشکریہ: جن ستّا)