اٹھارہویں لوک سبھا کا عام انتخاب صرف حکومت کی تبدیلی یا موجودہ حکومت کی بحالی کا مینڈیٹ حاصل کرنے سے بھی آگے بڑھ کر اب جمہوریت اور آئین کی ساکھ پر ٹک گیا ہے۔ اب تک ہونے والے 6مرحلوں میں حکمراں جماعت اوراس کی ہمنوا پارٹیوں نے جس طرح سے آئین، قانون اور جمہوریت کو اپنے پائوں تلے کچلا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ووٹروں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا گیا ہے۔ منگل سوتر سے شروع ہونے والی بات مجرا تک جاپہنچی۔ پھر80کروڑغریبوں کو مفت کھانا دینے کے عوض ووٹ مانگا گیا اور نہ دینے والوں کو ’ پاپ‘ لگنے کی وعید سنائی گئی۔ یہ سب ہوتا رہا لیکن انتخاب کے تقدس کا محافظ الیکشن کمیشن خاموش رہا۔ کسی معاملے کا اس نے ایسا کوئی نوٹس نہیں لیا جس سے انتخابی مہم میں بدزبانی کو لگام لگے۔لوگوں کے مذہبی اعتقاد مجروح کرنے، حزب اختلاف کے لیڈروں کے خلاف رکیک ذاتی الزامات سے مزین اشتہارات جاری ہوتے رہے۔ توہین آمیز، جھوٹے اور ووٹروں سے مذہبی بنیادوں پر ووٹ ڈالنے کی اپیل والے اشتہارات بھی سیکولر جمہوریہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے تقسیم کیے لیکن الیکشن کمیشن خاموش رہا۔ شکایتوں کے باوجود اس نے نہ تو کوئی ردعمل ظاہر کیا اور نہ ہی ایسے ’ملزمین‘ کے خلاف کوئی کارروائی کی۔
ان سب کا نتیجہ ہے کہ اب ساتویں مرحلہ میں عوام سے جڑے مسائل کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور آئین کی ساکھ بچانے کا ایشو بھی شامل ہوگیا ہے۔ اس مرحلہ کی پولنگ سے قبل انتہائی سنگین ہوجانے والی صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب حزب اختلاف بالخصوص کانگریس کے لیڈران نے اپنی انتخابی مہم میں آئین کی ایک چھوٹی کاپی اپنے ساتھ لے جانا شروع کر دیا ہے، جسے وہ لوگوں کو دکھاتے ہیں اور انہیں یاد دلاتے ہیں کہ اس آئین کی وجہ سے ہی ہمارے شہری حقوق اور جمہوریت محفوظ ہیں۔ لیکن بی جے پی اس آئین کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
کانگریس کے اس خدشہ کو اس امر سے بھی تقویت مل رہی ہے کہ الیکشن کمیشن کی سرگرمیوں اور اعمال سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ ایک آزاد آئینی ادارہ نہیں بلکہ حکومت کے زیرا نتظام کوئی ایسا ادارہ ہے جس کی لگام کسی اور کے ہاتھوں میںہے او ر وہ حکمراں جماعت کے شانہ بشانہ کام کرنے پر مجبور ہے۔ای وی ایم پر جب سوالات اٹھائے گئے اورسپریم کورٹ میں وی وی پی اے ٹی کی میچنگ کی عرضی داخل کی گئی تو الیکشن کمیشن اس کے خلاف اور حکومت کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ اب گزشتہ دنوں اسی طرح کا ایک اور معاملہ سامنے آیا ہے جس میں الیکشن کمیشن نے معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) اور کامن کاز نامی دو تنظیموں نے عدالت میں درخواست دائر کر کے اس انتخابات میں ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار کو عام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن فارم 17C کی بنیاد پر تصدیق شدہ ووٹنگ فیصد ڈیٹا شیئر کرنے کا قانونی طور پر پابند نہیں ہے۔ کمیشن نے عدالت میں اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ ویب سائٹ پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد بتانے والے فارم 17C کو اپ لوڈ کرنے سے بے ضابطگی ہوسکتی ہے۔ تصویر کے ساتھ چھیڑچھاڑ کا امکان ہے۔ قابل ذکر ہے کہ فارم 17C ایک اہم دستاویز ہے جس میں ہر پولنگ اسٹیشن پر اہم تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ ان میں استعمال شدہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs) کے شناختی نمبر، پولنگ اسٹیشن کو تفویض کردہ رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد اور رجسٹر(فارم 17A) کے مطابق ووٹ ڈالنے والے ووٹروں کی کل تعداد شامل ہے۔ مزید برآں، یہ ان ووٹروں کی تعداد کو نوٹ کرتا ہے جنہوں نے رجسٹر پر دستخط کرنے کے بعد ووٹ دینے یا ووٹ نہ دینے کا انتخاب کیا۔
سپریم کورٹ نے بھلے ہی ابھی درخواست کو زیر التوا رکھا اور اس پر گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد باقاعدہ سماعت کرے گالیکن ووٹنگ کے بعد گنتی کے ووٹوں کے اعداد و شمار بتانے والے الیکشن کمیشن کا ہر بوتھ پر ڈالے گئے ووٹوں کے اعداد و شمار دینے سے انکار کئی طرح کے شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ یہ صریحاً معلومات کے بنیادی حق کو غصب کرنے کی کوشش ہے۔آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج نے بجا طور پر کہا ہے کہ ای سی آئی بھول گیا ہے کہ ہماری جمہوریت میں لوگوں کو معلومات کا حق ہے! درحقیقت کنڈکٹ آف الیکشن رولز کا قاعدہ 93 لوگوں کو انتخابی کاغذات بشمول فارم 17C کا معائنہ کرنے اور ان کی کاپیاں طلب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ملک کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ کسی انتخاب میں الیکشن کمیشن کے کردار پر سڑکوں سے لے کر عدالت تک بار بار سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
[email protected]