عدالت کو سیاسی اغراض کیلئے اکھاڑا نہیں بنایا جا سکتا: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

سیاست ایک مقدس قومی خدمت ہے، نہ کہ ذاتی مفادات کی جنگ۔ بدقسمتی سے، آج کل کچھ سیاستدانوں نے عدالتوں کو اپنے سیاسی یا ذاتی مفاد کے لیے ’’اکھاڑا‘‘ بنا دیا ہے، جہاں وہ ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے رہتے ہیں جیسے کہ یہ کوئی کشتی کا میدان ہو۔ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں اظہار افسوس و ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ عدالت کو سیاسی جنگ کے لیے بطور پلیٹ فارم استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی کہی کہ سیاست دانوں کی کھال تو موٹی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے Thick skin الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ سیاست دانوں میں اپنے خلاف تبصرے کو بھی سننے اور برداشت کرنے کی قوت اور صبر کا مادہ ہونا چاہیے۔

موٹی کھال کی اصطلاح انگریزی زبان میںاستعارے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔یہ تصور جانوروں کی کھال سے لیا گیا ہے، جیسے کہ گینڈے یا ہاتھی کی کھال بہت موٹی ہوتی ہے، جس پر عام چیزوں کا اثر نہیں ہوتا۔اسی طرح جب انسان کو thick-skinnedکہا جاتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شخص جذباتی طور پر اتنا مضبوط اور بے پروا ہے کہ دوسروں کی باتوں یا تنقید کا اس پر اثر نہیں ہوتا۔سیاستدانوں کو اکثر نہ صرف hick-skinned tکہا جاتا ہے، بلکہ ان کے بارے میں اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اچھے سیاستداں کا فطرتاً یا مصلحتاً ایسا ہونا ضروری ہے حالانکہ اس مفروضے کا استعمال ان باوضع سیاست دانوں کے لیے نہیں کیا جاسکتا جن میں نہ صرف ماضی میں بلکہ آج بھی یہ خوبیاں موجود ہیں جیسے ملک کے مفاد کو سب سے مقدم رکھنا، دیانتداری، راست بازی،امانت داری، نظم و ضبط، خوش اخلاقی، عوام دوست رویہ، اقربا پروری اورجانبداری اور مجرمانہ ریکارڈ سے پاک، عوامی مفاد کو ترجیح دینا، عوامی فنڈز کا بہترین استعمال، ماہرانہ صلاحیت، باہمی رکھ رکھاؤ و محبت، خدا ترس، قابلِ اعتماد، بہترین فیصلہ ساز، قول و فعل میں یکسانیت، وعدے کی پابندی، مضبوط دل، صاف گوئی وغیرہ۔
یہ حقیقت ہے کہ سیاستدانوں پر روزانہ تنقید ہوتی ہے، چاہے وہ میڈیا کی جانب سے ہو، عوام سے یا مخالفین سے اور ان پر الزامات بھی لگائے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ جھوٹے بھی ہوتے ہیں۔آج کے دور میں ایک غلطی یا بیان بہت تیزی سے پھیلتا ہے، اس لیے برداشت بہت ضروری ہے۔اس اتار چڑھاؤ کو سنبھالنے کے لیے دل مضبوط ہونا چاہیے۔سیاست میں کامیابی کے لیے دل کا مضبوط اور تنقید برداشت کرنے والا ہونا لازمی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کی کھال موٹی ہوتی ہے۔

سیاست دانوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف گالی گلوچ یا نازیبا زبان استعمال کرنا ایک ایسا رجحان ہے جو سیاسی ماحول کو خراب کرتا ہے اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن کچھ سیاست دانوں نے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔آج ہمارے ملک میں سیاست صرف پالیسیوں اور نظریات کی جنگ نہیں رہی، بلکہ اکثر یہ ذاتی حملوں اور زبان درازی کا میدان بن چکی ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو اخلاقیات، تہذیب اور شائستگی کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔کبھی کبھی سیاست دان ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کو نشانہ بناتے ہیں، جیسے خاندان، کردار یا نجی معاملات۔ ٹی وی ٹاک شوز، جلسوں اور سوشل میڈیا پر سیاست دانوں کا انداز گفتگواور رویہ اکثر عوام کے سامنے ایک غلط مثال پیش کرتا ہے۔ نازیبا زبان کا استعمال جمہوریت میں قوت برداشت اور احترام کے اصولوں کو پامال کرتا ہے۔ جب سیاست دان ایسی زبان استعمال کرتے ہیں تو عوامی سطح پر بھی قوت برداشت میں کمی آ جاتی ہے اور معاشرہ مزید تقسیم کا شکار ہو جاتا ہے۔

سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ اختلاف رائے کو بصد احترام اور پیشہ ورانہ اصول کی روسے برداشت کریں اور ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کا انتخاب ذمہ داری سے کریں۔ عوامی نمائندوں کا کام صرف حکومت چلانا نہیں بلکہ معاشرے میں تہذیب اوربرداشت کا معیار قائم کرنا بھی ہے۔ہمارے ملک میں سیاست دانوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال ایک سنجیدہ مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف جمہوری اقدار کے خلاف ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔بھارت میں انتخابات کے دوران سیاست دان اکثر مخالفین کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ زبان ذاتی حملوں تک پہنچ جاتی ہے اور کسی کے خاندان، مذہب یا ذات تک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی وقتاً فوقتاً ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں ممبرانِ پارلیمنٹ نے ایک دوسرے کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کیے، جس پر اسپیکر کو مداخلت کرنی پڑی۔سوشل میڈیا جیسے ٹوئٹر (X)، فیس بک اور انسٹاگرام پر سیاست دان کھل کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں، جس میں اکثر ذاتی تضحیک اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے والی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ٹی وی ڈیبیٹس اور انٹرویوز میں بھی سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ مناظر ٹی وی پر براہِ راست دکھائے جاتے ہیں، جس سے نوجوان نسل پر برا اثر پڑتا ہے اور کبھی کبھی اس سلسلے میں اینکرز کے جانبدارانہ رویے کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے عوام اور سیاست دانوں کے مابین تقسیم میں اضافہ ہوتا ہے۔ عوام بھی سیاست دانوں کی تقلید کرتے ہوئے سخت اور نفرت انگیز زبان استعمال کرنے لگتے ہیں۔ایسا کرنے کا نہ کوئی اخلاقی جواز ہے نہ قانونی۔

سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ارکان کو اخلاقی تربیت دیں۔ میڈیا اور عوام ایسے بیانات دینے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر سختی سے کارروائی کریں تو ایسے رجحانات میں کمی آسکتی ہے۔ بھارت جیسے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں، جو کسی بھی وقت سیکورٹی کونسل کا مستقل رکن بن سکتا ہے، سیاست دانوں کا رویہ نہایت ذمہ دارانہ ہونا چاہیے۔ نازیبا زبان نہ صرف سیاسی ماحول کو آلودہ کرتی ہے بلکہ جمہوریت پر عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کرتی ہے۔ سیاسی اختلاف رائے کا اظہار، اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے تاکہ ایک صحتمند جمہوری کلچر فروغ پا سکے۔ ہمارے سیاست دانوں کی سوچ میں ملک اور عوام کے مفاد کو حیثیت سر بفلک حاصل ہونی چاہیے۔ وہ جو وعدہ کریں، اسے پورا کریں۔ جو بات کہیں، اس پر عمل کریں اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے جو فنڈ انہیں دیے جاتے ہیں، ان کا صحیح استعمال کریں۔ بھارت جیسے مذہبی اعتبار سے حساس ملک میں زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھیں۔ایسے سیاستدان ہی قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ ہمیں ایسے ہی کردار کے حامل رہنما چاہئیں، جو نہ صرف وعدے کریں بلکہ انہیں نبھائیں بھی اور مستقل قریب میںملک کو حقیقتاً ترقیاتی ممالک کی فہرست میں ہندسۂ بالا ترین تک پہنچانے میں کلیدی رول ادا کریں، نہ کہ رسمی۔دلی دور نیست۔اگر ہمارے رہنما اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے صدق دلی اور دلجمعی سے کوشش و محنت کریں اور ہمارے عوام ا ن کا بھرپور ساتھ دیں تو ایسی صورت میں تو قدم چوم لیتی ہے خود بڑھ کے منزل۔ مرد باید کہ ہراساں نہ شود، مشکل نیست کہ آساں نہ شود۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
amkhwaja2007@yahoo.co.in

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS