صبیح احمد
نیٹ-یوجی تنازع سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی کی طرف سے 0.001 فیصد بھی لاپروائی ہوئی ہے تو اس سے پوری طرح نمٹا جانا چاہیے۔ بچوں نے امتحان کی تیاری کی ہے، ہم ان کی محنت کو نہیں بھول سکتے ہیں۔‘ بنچ نے حکومت اور ’این ٹی اے‘ (نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی) سے یہ بھی کہا کہ تصور کریں کہ جو شخص نظام کو دھوکہ دے کر ڈاکٹر بن جاتا ہے، وہ معاشرے کے لیے اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے۔ 2015 میں سپریم کورٹ نے ایسا ہی تبصرہ کر کے آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ (اے آئی پی ایم ٹی) کے امتحان کو منسوخ کردیا تھا۔ حالانکہ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ معاملے کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن اس کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے کہ دھوکہ دہی سے ڈاکٹر بننے والے شخص کے ہاتھوں میں کتنے معصوم لوگوں کی جانیں دائو پر لگ جاتی ہیں۔ اور یہ معاملہ صرف آج کا یا نیٹ-یوجی تنازع سے جڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سلسلہ ہے، جو نہ جانے کب سے جاری ہے اور سماج کا کوئی بھی شعبہ شاید ہی اس سے اچھوتا ہوگا۔ حکومت کے کم و بیش تمام شعبوں اور محکموں اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں دھوکہ دہی، مکر و فریب اور بدعنوانی کرکے اعلیٰ عہدوں پر بے شمار لوگ بیٹھے ہوں گے، وہ سماج کے لیے کتنے خطرناک ہوں گے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل یہ سماج کے لیے ناسور ہیں۔
وزیراعظم گزشتہ ہفتہ ایک نئے کیمپس کا افتتاح کرنے کے لیے نالندہ میں تھے اور انہوں نے ہندوستان کو پہلے کی طرح سیکھنے کا سرچشمہ بنانے کے اپنے ’مشن‘ کے بارے میں ایک بہترین تقریر کی۔ ایسا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اہل علم، ماہرین تعلیم، ادیب، شاعر، مورخ اور محققین کو سوچنے، بولنے اور لکھنے کی مکمل آزادی نہیں دی جاتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ان کی حکومت غیردوستانہ نظریہ رکھنے والے غیر ملکی نامہ نگاروں کو معمول کے مطابق نکال دیتی ہے۔ تو پھر ان کا ’مشن‘ کیسے پورا ہو گا؟ اگر افسران اور سیاستداں چوکس اور سفاک سوچ والے پولیس والوں کی طرح کام کریں گے تو ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دانش و مہارت نہیں پنپ سکتی۔ دریں اثنا ہماری ’نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی‘ سے روزانہ نکل کر باہر آنے والی سڑن کو ایک موقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اگر نریندر مودی سنجیدگی سے چاہتے ہیں کہ ہندوستان سیکھنے کا مرکز بن جائے جیسا کہ یہ قدیم زمانے میں تھا۔ جب وزیر تعلیم اس بدعنوانی سے نمٹ چکے ہوں گے جو ہم ابھی قومی امتحان نظام میں دیکھ رہے ہیں ، تو انہیں اس امکان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو وہ خودمختاری دی جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں سڑن ’کنڈرگارڈن‘ سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ جس نے بھی دیہی سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا ہے، وہ اس کی تصدیق کر سکتا ہے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعظم مودی نے جو ہندوستان کو دوبارہ ’وشو گرو‘ بنانے کے ’مشن‘ کی بات کرتے رہتے ہیں، بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں سرکاری اسکولوں کو بہتر بنانے کے لیے اپنے وزرائے اعلیٰ پر زور دینے کی زحمت کیوں نہیں کی۔ ان میں سے بیشتر اسکول اس قدر خراب ہیں کہ غریب ترین والدین بھی تمام مجبوریوں کے باوجود اپنے بچوں کو اس امید کے ساتھ پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کم از کم گننا اور پڑھنا سیکھ لیں گے۔
ہندوستان دنیا کی 10 تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے لیکن پھر بھی یہاں دنیا کے ایک تہائی ناخواندہ ہیں۔ 18 سال سے کم عمر کی اپنی 40 فیصد آبادی کے ساتھ ہندوستان اب بھی اپنے شہریوں، خاص طور پر غریبوں کو تعلیم دینے میں ناکام رہا ہے۔ ایک مخلوط معیشت ہونے کے ناطے ہندوستان میں تعلیم کے شعبے میں اب بھی حکومتی مداخلت کی ضرورت ہے کیونکہ منافع کے مقصد سے چلنے والا تعلیمی نظام عوام کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن ہندوستان میں سرکاری اسکولوں کی حالت قابل رحم ہے۔ گنتی کی کچھ ریاستوں کو چھوڑ کر ہندوستان کی زیادہ تر ریاستوں کے تعلیمی اعدادوشمار ناقص ہیں۔ حالانکہ اسکولوں میں پہلے سے کہیں زیادہ بچے ہیں، لیکن سرکاری اسکولوں کا معیار حیرت انگیز طور پر نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ ان اسکولوں میں عام طور پر غریب ترین خاندانوں کے بچے آتے ہیں جو اپنے بچوں کو متمول خاندانوں کی طرح کسی اور جگہ پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ اگرچہ اسکولوں میں جانے والے بچوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے، لیکن وہ بنیادی سہولیات تک سے محروم ہیں۔ بچوں کی حالت زار پر متعلقہ حکام کا رویہ ناروا، لاتعلق اور غیر انسانی ہے اور لگتا ہے کہ لاکھوں بچوں کے تئیں حکام ذمہ داری اور فرض شناسی سے محروم ہو چکے ہیں۔
پرائیویٹ بمقابلہ سرکاری اسکولوں کی بحث کوئی نئی بات نہیں ہے، جس میں حق تعلیم(آر ٹی ای) کے نفاذ کے بعد مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکولوں کے درمیان فاصلہ بڑھ گیا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے گلیمر اور بھاری فیسوں پر غور کرنا اور ان کا سرکاری اسکولوں سے موازنہ کرنا فضول ہے۔کیرالہ اور کرناٹک کے تمام سرکاری اسکول بھی کافی بہتر ہیں۔ مدھیہ پردیش میں ’سی ایم رائز اسکول‘ اور چھتیس گڑھ میں ’سوامی آتمانند انگلش میڈیم اسکول‘ جیسے تعلیمی اداروں کے آغاز کے ساتھ سرکاری اسکولوں کی طرف لوگوں کا رجحان دوبارہ بڑھ گیا ہے۔ اس رجحان کو نہ صرف برقرار رکھنا ہے بلکہ آگے بھی لے جانا بھی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ سرکاری اسکولوں میں داخلے میں اضافہ کے ساتھ ہی والدین کی ٹیوشن کی طرف دلچسپی بھی بڑھی ہے۔ لیکن تقابلی طور پر یہ پرائیویٹ اسکولوں سے بہت سستا ثابت ہو رہا ہے۔ بلاشبہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی تنخواہ اچھی ہوتی ہے، وقتاً فوقتاً اختراعی اور تربیتی پروگرام چلائے جاتے ہیں۔ تدریس کے طریقوں اور معیار میں بہتری کے لیے بہت سے تجربات کیے جا رہے ہیں، لیکن سرکاری اساتذہ کا ایک ایسا گستاخ طبقہ بھی ہے جو پڑھانے کے بجائے دوسرے کاموں میں مصروف رہتا ہے۔ ان اعداد و شمار پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ کتنے اساتذہ کلاسوں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو پرائیویٹ بزنس، سیونگ اکاؤنٹ ایجنٹ یا ٹیوٹر بن کر والدین کو متاثر کرکے اضافی آمدنی میں مصروف ہیں۔ بہت سی ریاستوں میں سرکاری اساتذہ کو تھوک کے حساب سے دیگر کاموں میں الجھا دیا جاتا ہے۔ جیسے مردم شماری، مویشیوں کی مردم شماری کے فرائض وغیرہ۔ اس سے تدریس بے حد متاثر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا دیر سے آنا، جلد بھاگ جانا اور کلاسوں میں نہ پڑھانا جیسے معاملے بھی اکثر سرخیوں میں آتے ہیں۔ یہ مسائل آسانی سے حل کیے جا سکتے ہیں۔آج کل کوچنگ اور ٹیوشن کے چلن نے اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لی ہیں کہ اس کے بغیر ’معیاری‘ تعلیم کا حصول ناممکن سا لگنے لگتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض دفعہ والدین کو اسکول میں بچوں کے داخلے کی فکر کم ہوتی ہے لیکن اچھے کوچنگ اور ٹیوشن سینٹروںکی تلاش زیادہ ہوتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کچھ سالوں قبل ان بچوں کو اسکول کے علاوہ ٹیوشن یا کوچنگ کی سہولت دستیاب کرائی جاتی تھی جنہیں کلاس میں چیزیں ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتی تھیں یاجنہیں کمزور سمجھا جاتا تھا لیکن آج کل کوچنگ اور ٹیوشن جوائن کرنا فخر کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بغیر معیاری تعلیم کا حصول تصور سے باہر لگتا ہے۔ ’این ٹی اے‘ کرپشن جیسے معاملوں میں ان سینٹروں کا بھی کافی عمل دخل ہے۔ وہ بچوں اور والدین کو راغب کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے اپناتے ہیں۔ یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے سینٹر سے کوچنگ کر کے بچے مقابلہ جاتی امتحانات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔
لوگوں کی متنوع فطرت اور متنوع مذہب ہونے کے باوجود ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے پیچیدہ جمہوریت کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ ہندوستان اپنی پیچیدگیوں کے ساتھ مشکل حالات میں ترقی کر رہا ہے۔ وزیراعظم مودی نے اگلے 25 سالوں میں ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک اور ’وشو گرو‘ بنانے کا ہدف طے کیا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہندوستان میں تعلیمی نظام پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور یہ ہمیشہ ہر ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ثابت ہوا ہے۔
[email protected]