کورونا قیامت اور موجودہ سیاست

مذہب کے نام پر ووٹ دینے والے عوام کو حکومت سے زیادہ توقعات نہیں ہونی چاہیے

0

کلیم الحفیظ

کورونا کی دوسری لہر قیامت بن گئی ہے۔قبرستان میں گورکن کم پڑگئے ہیں بلکہ ممبئی،بھوپال،اندور،لکھنؤ اور دہلی جیسے شہروں میں قبرستان ہی کم پڑگئے ہیں،شمشان گھاٹ کی چمنیاں پگھل رہی ہیں، لکڑیاں کم پڑگئی ہیں، فٹ پاتھ پر لاشیں جلائی جا رہی ہیں،جنازہ اٹھانے اور ارتھی کو کاندھا دینے کے لیے بھی لوگ نہیں مل رہے ہیں۔ہر چہرے پر خوف ہے،ہر گھر میں وحشت کا سناٹا ہے۔اسپتال میں بیڈ نہیں،بیڈ ہیں تو آکسیجن نہیں،جان بچانے والی دوائیں نہیں،ہر شخص اپنوں کو اپنے سے جدا ہوتے دیکھ رہا ہے، ہر آنکھ نم ہے اورہر گھر میں ماتم کی کیفیت ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم ٹیکہ اتسو منا کر مطمئن ہیں۔ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور حکمراں بنگال فتح کرنے میں لگے ہیں۔ریلیاں اور روڈ شو کرکے جے جے کار کے نعرے لگوارہے ہیں۔شام کو میٹنگ میں کورونا پر گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں اور صبح کو ریلیوں میں ہجوم دیکھ کرقہقہے لگاتے ہیں، دہلی کے وزیراعلیٰ اشتہارات پر جتنی رقم خرچ کررہے ہیں اس سے پانچ سو بیڈ کا اسپتال تعمیر ہوسکتا ہے۔لاکھوں بھوکوں کو کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔

اگر عوام کا یہی حال رہا اور ہندوستان جیسے غریب اور بڑے ملک کی سیاست انسانی زندگی کے بنیادی ایشوز کے بجائے دھرم، مذہب،عقیدت، آستھا، مندر اور مسجد کے گرد گھومتی رہی تو موجودہ وقت سے بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب سماجی تنظیموں اور آئین پر اعتماد کرنے والی جماعتوں اور حقیقی جمہوریت کی پاسدار سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی سیاست کی سمت کو درست کریں۔وہ عوام کو بیدار کریں کہ اپنے سیاسی رہنماؤں سے اپنے بنیادی مسائل اور حقیقی ضرورتوں کے تعلق سے سوال کیا جائے۔

کورونا کے انتظامات کو لے کر حکومت کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی ہے۔ملک میں کورونا کا پہلا معاملہ 27 جنوری 2020کو سامنے آیا تھا۔اس کے بعد معاملے بڑھتے رہے،نئی وبا تھی،ملک پہلے سے تیار نہیں تھا اس کے باوجود حالات اس قدر سنگین نہیں تھے جس قدر آج ہیںجب کہ ہم نے ویکسین بھی ایجاد کرلی ہے۔کورونا کے سبب تباہی کے مناظر حکومت کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہیں،ہم ایک سال میں بھی کورونا سے بچاؤ کے لیے اسپتال اور دوائیں فراہم نہ کرسکے،بلکہ گزشتہ جولائی اگست میں جو انتظامات کیے گئے تھے وہ بھی لپیٹ کر رکھ دیے گئے۔حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ اس کی دوسری لہر بھی آئے گی اور یہ بھی اندازہ تھا کہ وہ پہلے سے زیادہ خطر ناک ہوگی۔اترپردیش کی یوگی سرکار کو تو اس معاملے میں ہائی کورٹ کی پھٹکار بھی سننی پڑرہی ہے۔
کورونا پر کنٹرول میں ناکامی بہت سے شکوک و شبہات پیدا کررہی ہے۔سرکار کی طرف سے مرنے والوں کی تعداد میں ہیراپھیری ان شکوک کو یقین میں بدل رہی ہے۔یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ جس بیماری پر دسمبر 2020میں قابو پالیا گیا تھا،وہ بیماری آخر اپریل میں اس قدر کیسے پھیل گئی۔جب جنوری میں ہی ملک میں تعلیمی اداروں کو کھولا جانے لگاتھا اور بازار معمول پر آنے لگے تھے،جب خبروں سے کورونا کا ذکر ختم ہوگیا تھاتو اچانک یہ وبا اس قدر کیسے پھیل گئی۔پھر اس مرتبہ یہ بیماری ہمارے ملک میں ہی سب سے زیادہ بھیانک روپ لے رہی ہے، دوسرے ممالک یا تو متاثر نہیں اور ہیں بھی تو بہت کم۔ ملک میں بھی دہلی، مہاراشٹر، اترپردیش، گجرات، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ ہی سب سے زیادہ متاثر کیوں ہیں،اگر اس بیماری کا اندیشہ تھا تو پانچ ریاستوں میں الیکشن اور الیکشن میں کھلی چھوٹ کیوں دے دی گئی،کیوں ہری دوار میں کمبھ کا انعقاد کیا گیا؟ جہاں ہزاروں سادھوکورونا پازیٹو ہوچکے ہیں اور درجنوں مرچکے ہیں اور بی جے پی حامی میڈیا کہاں سورہا ہے جس نے مرکز کو بدنام کرنے میں آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔کہیں کسانوں کے آندولن کوختم کرنے کا منصوبہ تو نہیں ہے،سوال یہ بھی ہے کہ اس قدر خراب حالات ہونے کے باوجود علاج معالجے پر پابندیاں کیوں لگائی ہوئی ہیں، تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں کو کورونا کے علاج کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے؟ویکسینیشن کا آغاز کرنے کے بعد اور وزیراعظم کے اس دعوے کے بعد کہ ملک میں ’’بھرپور ماترا ‘‘میں ویکسین ہے، ریاستیں ویکسین نہ ہونے کا شور کیوں مچارہی ہیں؟ کیوں بہت سے ویکسینیشن سینٹر بند کردیے گئے ہیں؟ اسپتالوں پرe No Vaccinکے بورڈ کیوں لٹک رہے ہیں؟ و یکسینیشن کے عمل کو جنگی پیمانے پر کیوں نہیں شروع کیا جارہا ہے؟یہ بہت سے سوالات اور شکوک ہیں جو ہر سوچنے والے دل اور دماغ میں پیدا ہورہے ہیں اور جن کا کوئی جواب سرکار کے پاس نہیں ہے بلکہ جواب میںلاک ڈاؤن لگا کر مزید مشکلات پیدا کی جارہی ہیں،غریبوں کے منھ سے نوالے چھین لینے کا منصوبہ ہے۔’میں ہوں نا‘ کے فلمی ڈائیلاگ بولے جا رہے ہیں۔
ایک سوال ان لوگوں سے بھی کرنا چاہیے جنھوں نے بی جے پی کو ووٹ دے کر اسے دوتہائی اکثریت سے اقتدار سے سرفراز کیا تھا۔انھوں نے اپنا ووٹ کس کام کے لیے اور کس امید پر دیا تھا؟بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ اگر انھیں دوتہائی اکثریت حاصل ہوگی تو وہ رام مندر کے لیے قانون بھی بنا سکتی ہے۔گویا ووٹ رام مندر کے لیے دیا گیا تھااور رام مندر بن رہا ہے،ووٹ کشمیر سے 370ختم کرنے کے لیے دیا گیا تھا اور 370کو ختم کردیا گیاہے۔بی جے پی کو ووٹ اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ ملک میں مسلمانوں کو ہر طرح سے پریشان کرے اور یہ کام موجودہ حکومت بخوبی کررہی ہے۔ جب الیکشن میں ایشوز ہی مندر،مسجد اور کشمیر کے رہے ہوں، جب ووٹ لینے اور دینے والوں نے شعوری طور پر مندر، مسجد اوردھرم کے نام پر ووٹ دیااور لیا ہو تو ووٹ دینے والوں کو روزگار،مہنگائی،اسکول اور اسپتال کی ڈیمانڈ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ملک کو ناقابل بیان تباہی کے دہانے پر پہنچانے کی ذمہ داری اس عوام کی بھی ہے جو الیکشن میں ذات،پات اور مذہب کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔جو اپنے رہنماؤں سے کبھی یہ سوال نہیں کرتے کہ مندر مسجد کی بات چھوڑئیے، پہلے یہ بتائیے کہ ہمارے بچوں کو تعلیم کیسے ملے گی،ہمارے بیماروں کو دوا کہاں سے ملے گی،ہمارے غریبوں کے چولہے کیسے جلیں گے۔جو ہندو-مسلم کے نام پر سیاست کرنے والوں سے نہیں پوچھتے کہ ہمارے نوجوانوں کو روزگار کہاں سے ملے گا؟ہماری بہو بیٹیوں کی حفاظت کیسے ہوگی؟بابری مسجد کے تالا کھلنے سے آج تک تمام الیکشن مندر، مسجد اور مذہب کے نام پرلڑے گئے اور عوام کے سارے بنیادی ایشوز عقیدت اور آستھا کے نام پر پس پشت ڈال دیے گئے۔فی الحال جو پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں ان میں بھی ہر جگہ ہندو-مسلم کارڈ کا استعمال کیا گیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ملک کی تباہ کن صورت حال میں عوام بھی ذمہ دار ہیں۔بی جے پی اور بی جے پی حامی میڈیا کے ذریعے بنائے گئے عوام کا مزاج دیکھ کر ہی کوئی ہنومان کا پجاری بنا اور کسی کوشیو مندر میں بھولے ناتھ کی پوجا کرنا پڑی،کسی کو اپنا جنیو دکھا کر بتانا پڑا کہ وہ بھی برہمن ہیں۔سیکولر پارٹیاں بی جے پی کے دھرم جال میں پھنس گئیں اور اپنے ووٹروں پر خود کو اصلی ہندو ثابت کرنے میں لگ گئیں۔
اگر عوام کا یہی حال رہا اور ہندوستان جیسے غریب اور بڑے ملک کی سیاست انسانی زندگی کے بنیادی ایشوز کے بجائے دھرم، مذہب،عقیدت،آستھا،مندر اور مسجد کے گرد گھومتی رہی تو اس سے بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اب سماجی تنظیموں اور آئین پر اعتماد کرنے والی جماعتوں اور حقیقی جمہوریت کی پاسدار سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی سیاست کی سمت کو درست کریں۔وہ عوام کو بیدار کریں کہ اپنے سیاسی رہنماؤں سے جن کو انھوں نے ووٹ دے کر اقتدار پر بیٹھایاہے، ان سے اپنے بنیادی مسائل اور حقیقی ضرورتوں کے تعلق سے سوال کیا جائے۔وارڈ کے کونسلر،گاؤں کے پردھان، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے ممبران تک سے یہ سوالات کیے جانے چاہیے۔ملک کے دانشور طبقے اور قلم کاروں کو بھی سیاست کے رخ کو درست کرنے کے لیے منظم کوششیں کرنا چاہیے۔ملکی سیاست کا مذہبی رخ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خود جمہوریت کے لیے تباہ کن ہے۔مذہبی نعروں پر بننے والی حکومت میں جمہوریت کا کوئی مقام نہیں ہوتا اور غیرجمہوری نظام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے پسماندہ طبقات کے لیے بھی غلامی کی اندھیری رات لائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS