سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
کرونا وائرس نے پوری دنیا میں افراتفری مچاکر تقریباََ سبھی معمولات کو یا تو ختم کردیا ہے یا پھر نئی چیزیں ’’معمول‘‘ بن رہی ہیں ۔کشمیر کے جیسے قدامت پسند سماج میں روایات کا بدل جانا کئی لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔
ایسے میں کہ سوشل ڈسٹینسنگ پر بڑا زور ہے کشمیر میں کئی لوگ،باالخصوص بزرگ، یہ سوچ سوچ کر کانٹا ہورہے ہیں کہ موجودہ حالات میں وہ مر گئے تو انکا اس انداز سے الوداع نہیں ہوگا کہ جسے وہ ’’جنتی ہونے کی ایک نشانی‘‘ سمجھتے آئے ہیں۔ جیسا کہ محمد رمضان (یہ انکا اصلی نام نہیں ہے) کو ڈر ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم اپنے دن کاٹ چکے ہیں ،مرنے کی سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے اور اسلئے مرنے کا ڈر بھی نہیں ہے لیکن آج کے حالات میں لوگ جنازہ کیلئے بھی نہیں آتے ہیں‘‘۔ انہوں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ کہا کہ کس طرح انکے گھر سے چند ایک کلومیٹر دور گذشتہ دنوں انکے دیرینہ دوست دُنیا سے رخصت ہوئے اور محمد رمضان وہاں نہ جاسکے۔ انہوں نے کہا’’ہم نے بڑے اچھے دن ساتھ گذارے ہیں،انکا انتقال ہوا تو مجھے اطلاع کی گئی لیکن میرے بچوں نے کرونا (وائرس) کی وجہ سے مجھے باہر نکلنے کی اجازت دی اور نہ وہ خود میرے دوسے کے جنازے میں جاسکے۔ سُنا ہے کہ چند ہی ایک لوگ انکی آخری رسومات میں شامل ہوپائے تھے‘‘۔
کشمیری سماج نہایت ہی قدامت پسند ہے یہاں تک کہ کوئی غیر بھی مر جائے تو جنازے اور پھر متعلقہ سرگرمیوں میں سینکڑوں اور بعض اوقات ہزاروں لوگ جمع رہتے ہیں لیکن کرونا وائرس نے یہ سب بدل دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف لوگ خود کہیں جانے سے کترارہے ہیں تو دوسری جانب سوگوار خاندان مقامی ٹیلی ویژنوں اور اخباروں میں یہ اشتہار دینے لگے ہیں کہ اُنکے گھر کوئی پُرسہ دینے کیلئے حاضر نہ ہوجائے۔
حالانکہ دیہی علاقوں میں ابھی یہ صورتحال نہیں ہےبلکہ وہاں کسی حد تک روایات قائم ہیں جیسا کہ جنوبی کشمیر میں مشہور سیاحتی مرکز پہلگام کے مضافاتی گاؤں لیور کے ایک سماجی کارکن نسار احمد میر کہتے ہیں ’’ہمارے یہاں بدھ کو ایک مفلس خاتون کا انتقال ہوا،جنازے میں سینکڑوں لوگ شریک ہوئے اور دیگر رسومات بھی معمول کے مطابق رہیں لیکن شہروں میں سب تتر بتر ہورہا ہے‘‘۔
صورہ سرینگر میں چند دن قبل ایک آسودہ حال شخص کا انتقال ہوا تو انکے بہت سارے قریبی احباب و اقارب بھی انکے یہاں حاضر نہیں ہوپائے حالانکہ اس سے کچھ وقت قبل اُنکی والدہ کے انتقال کے موقعہ پر اُنہیں اپنے وسیع بنگلے کے کافی ثابت نہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں صحن میں شامیانہ لگانا پڑا تھا جہاںکئی دن تک لوگوں کا تانتا بندھا رہا تھا۔
محمد رمضان کا کہنا ہے ’’ہمارے یہاں یہ مانا جاتا رہا ہے کہ جس شخص کی نمازِ جنازہ میں جتنے زیادہ لوگ شامل ہوسکیں وہ شخص اتنا ہی جنت کا حقدار ہوتا ہے‘‘۔عبد الستار (فرضی نام) نامی ایک اور بزرگ کو بھی یہی غم کھائے جارہا ہے اور وہ کہتے ہیں ’’میں دعا کرتا ہوں کہ کرونا وائرس کا خوف ختم ہونے سے قبل مر نہ جاؤں میں چاہتا ہوں کہ میرے جنازے میں سبھی دوست احباب اُسی طرح شامل ہوں کہ جس طرح ہمارے یہاں کی روایت ہے‘‘۔
عالمِ دین اور معروف کالم نویس الطاف ندوی کشمیری تاہم کہتے ہیں ’’موجودہ حالات کربناک تو ہیں لیکن جنازے کا حجم کسی کے جنتی یا خدا نخواستہ جہنمی ہونے کی کوئی دلیل ہوسکتی ہے۔ جو لوگ اس وجہ سے پریشان ہیں انہیں جان لینا چاہیے کہ اور تو اور بلکہ اہلبیتِ مطہرین تک کے حالات کی وجہ سے محدود جنازے ہوئے ہیں‘‘۔
البتہ محمد رمضان کہتے ہیں ’’ اگر جنازے میں بہت لوگ شریک نہ ہوسکے تو آخرت کا پتہ نہیں لیکن بچوں کو نہ جانے کیا کیا طعنے سہنا ہونگے، میں ہی کیا کوئی بھی شخص بے بسی کی موت نہیں مرنا چاہتا ہے‘‘۔
قدامت پسند کشمیری سماج پر کرونا کی نفسیاتی مار چھوٹے جنازوں اور تعزیتی مجالس کی منسوخی کے ڈر سے کئی بزرگ سوکھ کے کانٹا ہورہے ہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS