عبدالماجد نظامی
علامہ اقبالؔکے الفاظ میں بات کہی جائے تواہل نظر رام جی کو ’امام ہند‘ سمجھتے ہیں اور کیوں نہ سمجھیں جبکہ مریادا ہی ان کی پہچان تھی اور یہی مریادا اس ملک کی بھی پہچان ہے مگر کیا آج مریادا کا خیال رکھا جا رہا ہے؟ کرناٹک میں طالبہ مسکان خان کو ’جے شری رام ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے لڑکوں نے جس طرح گھیرے میں لینے کی کوشش کی، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اس ملک میں کئی لوگوں کو مریادا کو پھر سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ رام کو سمجھ سکیں اور رام نام کا استعمال کسی معصوم لڑکی کو خوف میں مبتلا کرنے یا لنچنگ جیسے شیطانی عمل کے لیے نہ کر سکیں۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ مسکان خان گھبرائی نہیں، اس نے بھرپور جواب دیا۔ اس نے جس طرح پرزور آواز میں ہاتھ اونچا کر کے ’اللہ اکبر‘ کہا، وہ واقعی حیرت میں ڈال دینے والا ہے۔ ایک ایمان والی لڑکی سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے ڈرے گی نہیں اور اگر ڈر محسوس ہوگا تو اللہ ہی کو یاد کرے گی، کسی کے سامنے گڑگڑائے گی نہیں، کمزوری اور لاچاری کا اظہار نہیں کرے گی۔ خود مسکان نے ایک انٹرویو میں یہ بتایا کہ وہ ڈر گئی تھی۔ اسی لیے اس نے اللہ کا نام لیا، کیونکہ وہ ڈرتی ہے تو اللہ ہی کو یاد کرتی ہے۔
آج اگر مجازؔ زندہ ہوتے تو مسکان خان کو دیکھ کر یہ کہنے کی ضرورت انہیں نہیں پڑتی کہ ’تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا‘۔ مسکان نے یہ ثابت کیا کہ باحجاب لڑکیوں کو بھلے ہی کوئی کمزور سمجھے مگر وہ کمزور نہیں ہوتی ہیں، اپنی عزت و حرمت کی حفاظت کرنے والی کوئی لڑکی کمزور ہو بھی نہیں سکتی۔ حیرت با حجاب لڑکیوں کو کمزور سمجھنے والوں پر ضرور ہے اور اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ حجاب کو اس ملک میں متنازع بنا دیا گیا ہے جو ملک صدیوں سے پردے کی اہمیت سے واقف ہے، یہاں ہمیشہ سے با حیا ہونے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے کئی علاقوں، بالخصوص ہریانہ، راجستھان، اترپردیش،بہار، بنگال سمیت بیشتر ریاستوں میں گھونگھٹ کی باقاعدہ روایت رہی ہے۔ ان علاقوں میں عورتیں ایک عمر میں آجانے کے باوجود سسر، جیٹھ اور خاندان کے دیگر بڑے مردوں سے پردہ کرتی ہیں۔ان کے سامنے جانے پر چہرے کو گھونگھٹ سے چھپائے رکھتی ہیں اور مرد بھی ان سے باتیں کرتے وقت ان کی حیا کا لحاظ کرتے ہیں۔ اسی طرح بہار، اترپردیش اور ملک کے دیگر علاقوں میں لڑکیاں سروں پر دوپٹہ رکھتی ہیں اور شادی شدہ خواتین ساڑی کا پلُّو سر پر رکھتی ہیں۔ گھر کے بڑے مردوں کے سامنے جانے پر وہ پلُّو سے چہرہ ڈھانک لیتی ہیں۔ ان کا ایسا کرنا ہندوستانی سنسکرتی کی پاسداری سمجھا جاتا ہے، اسی لیے بلا تفریق مذہب و ملت ان کی قدر کی جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ پچھلی دو ڈھائی دہائی میں صورت حال پہلے جیسی نہیں رہی ہے، حالات کی تبدیلیوں کا اثر کئی باحیا خواتین پر بھی پڑا ہے، وہ کسی حد تک بے پردگی کو بے باکی اور آزادی نسواں سمجھنے لگی ہیں اور ان کی اس سوچ کی تشکیل میں فلموں، اشتہاروں، انٹرنیٹ، بالخصوص سوشل میڈیانے اہم کردار ادا کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ حجاب کے خلاف تنازع چھیڑ کر ان خواتین کو صحیح ثابت کرنا چاہیے یا انہیں یہ بتانا چاہیے کہ لڑکی سماج کی بیٹی ہوتی ہے، وہ بدلتی ہے تو سماج بدلتا ہے، وہ بے آبرو کی جاتی ہے تو سماج خود کو بے آبرو محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے دلی میں ’نربھیا کانڈ ‘ہوا تو مذہب، ذات، خطے کی تفریق کیے بغیر لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی انہوں نے دم لیا۔ ’نربھیا کانڈ‘ کے وقت اور بعد میں بھی لڑکیوں کے ملبوسات پر تنقید کی جاتی رہی ہے، یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ وہ کپڑے ہی ایسے پہنتی ہیں کہ ان کے ساتھ برا ہوتا ہے مگر ایسا کہنے والے لوگ آج کہاں ہیں؟ وہ کن بلوں میں دبک گئے ہیں؟ انہیں اگر لڑکیوں کے بے باکانہ لباس پہننے پر بھی اعتراض ہے اور ساتھ ہی لڑکیوں کے حجاب پہننے پر بھی خاموش رہتے ہیں تو پھر ان کے ذہنی دیوالیہ پن پر شبہ کیوں نہ کیا جائے؟ کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ وہ اپنے ملک میں ہر حالت میں لڑکیوں کو ہی قصوروار ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
آر ایس ایس سے وابستہ شاخوں کے لوگ جب ’روز ڈے‘یا ’وِلنٹائن ڈے‘ پر یہ خیال رکھتے ہیں کہ سماج کے لڑکے اور لڑکیاں ملک کی تہذیبی مریادا کی حد کو پار نہ کریں تو تادیبی انداز پر بھلے ہی کسی مسلمان کو اعتراض ہوا ہو مگر ان کے قدم کی تعریف ہی ہوتی رہی ہے۔ اسی لیے کون یہ سوچ سکتا تھا کہ اسی ملک میں حجاب متنازع بنا دیا جائے گا مگر سیاست کسی بھی چیز کو متنازع بنا سکتی ہے، یہ اب نہ سمجھنے کی ضرورت رہ گئی ہے اور نہ ہی سمجھانے کی۔ کرناٹک میں حجاب کا ایشو اس وقت چھڑا ہے جب پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں، چنانچہ اس ایشو کو سیاست سے جوڑا جانا فطری ہے، سیاست سے جوڑنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جن تعلیمی اداروں میں لڑکیاں آج تک حجاب میں تعلیم حاصل کرتی رہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ اچانک آج اسی حجاب کو متنازع بنا دیا گیا ہے، اسی حجاب کو ان کے حصول علم میں رکاوٹ بنا دیا گیا ہے؟ وجہ اگر سیاست نہیں توپھر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وجہ کیا ہے، کیونکہ یہ ہندوستان ہے، یہ فرانس یا ان یوروپی ملکوں جیسا ملک نہیں ہے جہاں لڑکیوں اور عورتوں کا ساحلوں پر بکنی یا ٹاپ لیس سن باتھ کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا، جہاں ان کا بے باکانہ لباس میں بازاروں میں گھومنا قابل اعتراض نہیں۔ ہمارے ملک میں گھونگھٹ میں رہنے والی خواتین کی تعداد گزشتہ کئی برسوں میں کم ہوئی ہے، لڑکیوں نے اوڑھنیوں اور دوپٹوں کا استعمال کم کیا ہے، بعض جگہوں پر اوڑھنیاں اور دوپٹے سینہ ڈھانکنے کی نہیں، گلے میں لپیٹنے کی چیزیں بن گئی ہیں، بعض جگہوں پر انہیں کھونٹی میں ٹانگ دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود بے حیائی یا بے پردگی آج بھی اس ملک میں شرف قبولیت حاصل نہیں کرپائی ہے، اس لیے کوئی مسلم لڑکی با حیا ہے، حجاب کا استعمال کرتی ہے، سر ڈھانک کر رکھتی ہے،چہرہ چھپاکر رکھتی ہے تو وہ اپنے مذہب اسلام کے احکامات پر تو عمل کر ہی رہی ہے ساتھ ہی اس ملک کی صدیوں پرانی سنسکرتی کی حفاظت بھی کر رہی ہے، وہ سچی ہندوستانی ہے اور اسے متنازع ان لوگوں کو تو بنانے کی بالکل کوشش نہیں کرنی چاہیے جو راشٹرواد کا سرٹیفکیٹ بانٹتے پھرتے ہیں، سنسکرتی کی باتیں کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا باتوں سے سنسکرتی کی حفاظت ہوگی؟ بالکل نہیں! حفاظت باتوں سے نہیں ہوگی، اپنی سنسکرتی کی حفاظت کے لیے ’وِلنٹائن ڈے‘ اور ’روز ڈے‘پر لڑکوں کو لڑکیوں سے ملنے سے روکنے، انہیں مہذب رہنے کی سختی سے تلقین کرنے والوں کو با حجاب لڑکیوں کا ساتھ دینا چاہیے، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ سمجھانا چاہیے کہ مسلم لڑکیاں اگر حجاب میں رہیں گی تو اس کا مثبت اثردیگر مذاہب کی لڑکیوں پر بھی پڑے گا۔ وہ مغرب زدہ ہونے کے بجائے مریادا کی لکشمن ریکھا میں رہنا پسند کریں گی مگر افسوس اس بات پر ہے کہ لڑکیوں کے حقوق کی باتیں کرنے والوں کو طالبات کے ملبوسات کے حق کا خیال نہیں۔ کیا بیٹیاں اسی طرح پڑھیں گی اور اسی طرح آگے بڑھیں گی؟ کیا بیٹیوں کے علم کے میدان میں پیچھے چھوٹ جانے کے باوجود ملک وشو گرو بن جائے گا؟ ان سوالوں پر آج سوچنے کی ضروت ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ سوریہ نمسکار کے لاگو ہونے سے جس طرح ملک منواسمرتی سے نہیں چل رہا ہے اسی طرح حجاب کی آزادی سے ملک شریعت سے نہیں چلنے لگے گا۔n
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]