عبیداللّٰہ ناصر
ویسے تو زندگی کے ہر شعبہ کا بھگواکرن آر ایس ایس کا مقصد وجود ہی رہا ہے لیکن تعلیم کو اس نے سب سے زیادہ اہمیت دی اور آزادی کے بعد ہی اپنی حکومتیں نہ ہونے کے باوجود بھی اس نے یہ سلسلہ شروع کر دیا اور اپنے سلیپنگ سیلس کے ذریعہ نصاب اس طرح تیار کرایا جو اس کے مقصد کی تکمیل کرسکے۔ جیسے جیسے حکومت میں اس کا دخل بڑھتا رہا ویسے ویسے وہ تعلیمی نظام کے بھگواکرن کو تیز کرتی رہی، کورس کی کتابوں میں ہندو دیومالائی قصوں کی بھرمار جو درجہ ششم سے لے کر انٹر تک ہر طالب علم کو پڑھنا ہی پڑتا ہے، اس طرح ویدک ریاضی بھی کورس میں شامل کی گئی، پوتھی پترا وچارنے مستقبل کی پیش گوئی کرنے جیسے غیر سائنسی علوم بھی کورس میں شامل کیے جانے کی باتیں اٹھتی رہتی ہیں، مفروضوں کو تاریخ بتایا جا رہا ہے اور اس علم کے ساتھ خطرناک کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور اسے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اٹل جی کے زمانہ میں جب ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے نصاب کے بھگواکرن کو رفتار دی لیکن ان کے بعد جب آنجہانی ارجن سنگھ وزیر تعلیم ہوئے تو انہوں نے اس کے خلاف مہم شروع کر دی لیکن 2014 کے بعد سنگھ پریوار کو میدان صاف مل گیا او ر تعلیم کے بھگواکرن کی یہ مہم پوری شدت سے جاری ہے۔
سبھی آئینی اداروں پر قبضہ کے بعد اب یونیورسٹیوں پر قبضہ کی مہم شروع کی گئی ہے۔ ویسے تو جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں، وہاں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر پہلے ہی بھگوا بریگیڈ سے ہی منتخب کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی تک میں اسی قبیل کا وی سی مقرر کیا گیا لیکن جن ریاستوں میں بی جے پی کی سرکاریں نہیں ہیں، وہاں کی یونیورسٹیوں میں بھی سنگھی وی سی ہو، اس کا انتظام وی سی کے انتخاب کے نئے نظام کے ذریعہ کر دیا گیا ہے، جہاں چانسلر یعنی ریاستی گورنر کو حتمی اختیار دے دیا گیا ہے۔ ابھی بھی غیر بی جے پی سرکاروں کے ساتھ مرکز کے مقرر کیے گئے گورنروں سے چپقلش چلتی رہتی ہے جبکہ آئینی طور سے وہ کابینہ کی ہدایت اور مشوروں پر ہی کام کرنے کے مجاز ہیں، اب چپقلش کا ایک اور دروازہ کھول دیا گیا ہے ۔
آزادی کے بعد جب ملک نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش شروع کی تو ہمارے معماران وطن نے دیگر زمروں کے علاوہ فروغ تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی کیونکہ بغیر تعلیم کے کوئی ملک اور قوم جہاد زندگانی میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے تعلیم جیسی اہم وزارت مولانا آزاد کے سپرد کر دی تھی جن کی دوراندیش سوچ اور فکر نے جہاں ایک جانب ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی تشکیل کی، وہیں آئی آئی ٹی آئی آئی ایم جیسے تکنیکی تعلیم کے ادارے بھی قائم کیے تاکہ ان میدانوں میں اعلیٰ تعلیم کا دروازہ سماج کے ہر طبقہ کے لیے کھل سکے اور نادار طبقہ کے جوان جو انگلینڈ و امریکہ جا کر اعلیٰ تعلیم نہیں حاصل کرسکتے، انہیں اندرون ملک مناسب اخراجات سے اعلیٰ تعلیم مل سکے اور وہ ملک کی تعمیر نو میں اپنا تعاون دے سکیں۔تعلیم کو اگر چہ ریا ستی زمرہ میں رکھا گیا تھا لیکن مرکزی حکومت بھی اس زمرہ میں بھر پور مالی امداد فراہم کر کے ملک میں تعلیمی انقلاب لانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر تی ہے۔ریاستی حکومتوں نے بھی اپنے حصہ کا کردار بخوبی ادا کیا۔ گاؤں گاؤں پرائمری اور جونیئر ہائی اسکول کھولے گئے جہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی، سرکار کے ہائی اسکول اور انٹر کالجوں میں بہت معمولی فیس دے کر تعلیم حاصل کی جا سکتی تھی، اعلیٰ تعلیم بھی کوئی بہت مہنگی نہیں تھی حالانکہ تب غربت اتنی تھی اور تعلیم کو لے کر اتنی بیداری بھی نہیں تھی، اس لیے خواندگی کی شرح بڑھتی تو رہی لیکن خاطر خواہ سطح پرنہیں پہنچی تھی پھر بھی سرکاروں کی کوششیں جاری رہیں۔راجیو گاندھی جب وزیراعظم ہوئے تو دیہی علاقوں میں معیاری تعلیم کے لیے جواہر نوودہ ودھیالیہ اور کستوربہ ودھیا لیہ ملک کے ہر ضلع میں کھلوائے، ساتھ ہی اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے لیے بہت سی نئی یونیورسٹیاں بھی اس درمیان قائم کی گئیں۔1990میں جب نرسمہا راؤ وزیر اعظم اور ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر مالیات بنے تو ہندوستانی معیشت میں پرائیویٹ زمروں کو فروغ دیا گیا۔ تعلیم کے زمرہ میں بھی پرائیویٹ پلیئرس میدان میں اور ملک میں نئی نئی یونیورسٹیوں، میڈیکل انجینئرنگ اور مینجمنٹ کالجوں کی باڑھ آ گئی، اگر یہ زمرہ کھولا نہ گیا ہوتا تو شاید سرکاریں رپورٹ کے مطابق ایسے کالج اور یونیورسٹیاں نہ کھول پاتیں اور ان میں داخلہ ایک کردار ہوتا، لیکن اس کا منفی پہلو یہ تھا کہ تعلیم مہنگی ہوتی چلی گئی اور ان فائیو اسٹار کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ ہر بچے کے لیے ممکن نہیں تھا۔ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس کا حل بینکوں سے تعلیمی قرض کا انتظام کرکے نکالا، جہاں کم شرح سود پر طلبا کو قرض مل جاتا تھا جس کی ادائیگی انہیں ملازمت ملنے پر قسطوں میں کرنی ہوتی ہے۔
اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے فکر مند حکومتیں تعلیم پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ دیتی ہیں لیکن اب جو سرکاری اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں وہ تشویش میں مبتلا کرنے والے ہیں۔ ایک سرکاری ادارہ یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فا ر ایجوکیشن(یو ڈی آئی ایس ای)کی 2023-24 کی رپورٹ کے مطابق اس تعلیمی سال میں 37لا کھ بچوں کا کم اندراج ہوا ہے، ان میں16لاکھ بچیاں شامل ہیں۔ حکومت کی وضاحت کے مطابق یہ کمی اعداد و شمار جمع کرنے کے نئے طریقوں اور ڈبل اندراج روکنے کی وجہ سے آئی ہے لیکن یہ محض حقیقت سے منہ چھپانا ہے کیونکہ بینکوں سے تعلیمی قرض بھی کم ہوئے ہیں، دونوں کو ملا کر دیکھئے تو حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔یہ معاملہ صرف اعداد و شمار کا نہیں، ملک کے بچوں اور خود ملک کے مستقبل کا بھی معاملہ ہے کیونکہ جب بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوں گے تو کئی نقصان دہ اور منفی دروازے ان کے لیے کھل جائیں گے۔ کہیں یہ سب کچھ کسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ تو نہیں ؟راہل گاندھی نے یوں ہی تونہیں کہا ہے کہ بی جے پی کی حکومت ایکلویہ کی طرح نوجوانوں کا انگوٹھا کاٹ کر ان کا مستقبل برباد کر رہی ہے۔
ملک میں تقریباً پانچ کروڑ طالب علم ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے تقریباً25 سے30لاکھ طلبا کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بینک سے تعلیمی قرض کی ضرورت پڑتی ہے، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے 75فیصد طلبا بینک سے قرض لے کر تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔2023-24کے تعلیمی سال میں صرف سات لاکھ طلبا تعلیمی قرض حاصل کرسکے اور75فیصد طلبا تعلیمی قرض سے محروم رہے جس کی وجہ سے ان کے سرپرستوں کو مہنگی شرح سود یعنی 18-20فیصد سالانہ پر پرسنل لون لینا پڑا جبکہ تعلیمی قرض پر شرح سود8-10فیصد ہوتی ہے۔ تعلیم کی طرف سے حکومت کی یہ بے مہری افسوسناک، شرمناک اور تشویشناک ہے۔ ایک طرف حکومت دھنا سیٹھوں کا کھربوں روپے کا بینک قرض معاف کر دیتی ہے، دوسری طرف تعلیمی قرض کے لیے دروازے مسدود کرتی جا رہی ہے، یہی نہیں حکومت نفرت کا پرچار کرنے والی فلموں کا ٹیکس معاف کر دیتی ہے جبکہ کتابوں کاپیوں پر18-20فیصد جی ایس ٹی لگاتی ہے۔ کورس کی کتابوں کے پبلشروں کو بھی لوٹ کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کتابوں کے دام طے کرنے کا کوئی سرکاری فارمولہ نہیں ہے، پبلشر من مانے داموں پر کتابیں فروخت کرتے ہیں۔ پہلے غریب طلبا پرانی کتابیں خرید کر کا م چلا لیتے تھے یا بڑے بھائی بہن کی کتابیں چھوٹے بھائی بہنوں کے کام آجاتی تھیں، اب ہر سال کتابیں بدل جاتی ہیں۔ اب کتابوں پر کور جتنے پیسوں میں چڑھتا ہے، اتنے میں پہلے ایک سال کی پڑھائی پوری ہو جاتی تھی۔آنجہانی منموہن سنگھ کی حکومت نے حق تعلیم قانون بنا کر نادار غریب بچوں کے لیے اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے کا دروازہ کھولا تھا، مودی حکومت نے یہ دروازہ بھی کم و بیش بند ہی کر دیا ہے۔ اسکول انتظامیہ اور پبلشروں کی من مانی جاری ہے، کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔دوسری طرف اترپردیش میں ہی ہزاروں بیسک اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ بقول سرکار بہادر ان میں خاطرخواہ طلبا نہیں ہیں۔ تکنیکی اسکولوں(ای ٹی آئی ) کونجی ہاتھوں میں دینے کی بھی خبریں ہیں جہاں سیکڑوں روپے والی فیس لاکھوں میں ہو جائے گی۔
ویسے تو حکومت کی تعلیم کی طرف سے اس غیر ذمہ دارانہ پالیسی کا اثر سماج کے ہر طبقہ پر پڑے گا لیکن سب سے زیادہ متاثر مسلم اور دلت طبقہ ہوگا۔ سابقہ کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کئی وظائف کا اعلان کیا تھا جنہیں مودی حکومت نے بند کر دیا ہے۔تعلیم کے بنا کسی ملک کی تعمیر اور ترقی نہیں ہوسکتی، موجودہ حکومت کیا سوچ کر اور کس منصوبہ کے تحت تعلیم کی طرف سے یہ معاندانہ رخ اختیار کیے ہے، یہ سمجھ پانا مشکل ہے۔