راہل کی محبت کی دکان میں تالا لگانے کے درپے کانگریسی: عبیداللّٰہ ناصر

0

عبیداللّٰہ ناصر

بات بہت پرانی ہے، کہیں پڑھا تھا یا کسی سینئر سے سنا تھا کہ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو لکھنؤ سے دہلی ٹرین سے واپس جا رہے تھے، ریلوے ا سٹیشن پر انہیں الوداع کہنے کے لیے وزیرا علیٰ گووند بلبھ پنت سمیت دیگر معززین آئے ہوئے تھے، ان میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس آنند نرائن ملا بھی تھے۔ ٹرین کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے پنڈت نہرو کی نظر وہاں لگے کچھ بورڈوں پر پڑگئی۔ بیت الخلا کی جگہ ’مترالیہ‘، کیفٹیریا کی جگہ ’جلپان گرہ‘ جیسے الفاظ دیکھ کر وہ برداشت نہیں کر سکے اور وزیرا علیٰ پنت سے کہا کہ پنت جی یہ سب کیا احمقانہ حرکتیں ہو رہی ہیں۔ پنت جی توکچھ نہیں بول سکے مگر جسٹس ملا نے پنڈت نہرو سے بڑے پتے کی بات کہہ دی، انہوں نے کہا: ’’پنڈت جی سیکولر ازم کی لڑائی میں آپ کی حالت کرشن جی کی طرح ہے جو پانڈوؤں کے ساتھ اکیلے تھے جبکہ ان کی فوج کوروؤں کے ساتھ تھے۔‘‘ جسٹس ملا کا اشارہ کانگریس میں بھرے ہوئے سنگھیوں کی جانب تھا، یہی حال آج کی کانگریس میں راہل گاندھی کا ہے۔ راہل گاندھی پوری طاقت سے سیکولرازم کے تحفظ کی لڑائی لڑ رہے ہیں، وہ جگہ جگہ نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے کی بات کرتے ہیں۔ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ یہ لڑائی پوری طاقت،بہادری، نیک نیتی اور پورے دم خم سے لڑ رہے ہیں۔ موسم کی سختیوں کی پروا کیے بنا انہوں نے ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کیا۔ 2014 میں نفرت، تشدد، جھوٹ اور افواہ بازی کے جو سیاہ با دل ملک پر چھا گئے تھے، راہل اس میں علامہ اقبال کی ’’قندیل رہبانی‘‘ بن کر چمکے، لیکن ان کی محنت، ان کی قربانی پر ان کے اپنے ہی لوگ پانی پھیر رہے ہیں۔ یہ آستین کے سانپ کبھی عین وقت پر پارٹی سے غداری کر کے سنگھ پریوار کا حصہ بن جاتے ہیں، کبھی پارٹی میں رہ کر اس کی جڑوں میں مٹھا ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک لیڈر ہماچل پردیش کے وزیر برائے تعمیرات عامہ اور شہری ترقی وکرمادتیہ سنگھ ہیں، جنہوں نے گزشتہ دنوں اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہوٹلوں اور اشیائے خورد و نوش فروخت کرنے والے سبھی ٹھیلوںو ریہڑی والوں کے لیے اپنے نام وغیرہ جلی حروف میں ڈسپلے کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ فرمان جاری کرنے کے لیے اپنے وزیراعلیٰ کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت نہیں سمجھی جنہوں نے فوراً ہی اپنی حکومت کو اس فرمان سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق راہل گاندھی اور صدر کانگریس ملکارجن کھرگے اس فرمان پر سخت ناراض ہوئے اور وکرمادتیہ سنگھ کو دہلی طلب کر کے ان کی سخت سرزنش کی گئی اور ان سے تحریری جواب طلب کیا گیا ہے۔
ہماچل پردیش اس وقت بی جے پی کے نشانہ پر ہے اور کانگریس میں بھیڑ کی کھال میں چھپے بھیڑیے حسب سابق اس کی طاقت ہیں۔ ہماچل پردیش کے اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی شاندار فتح کے بعد سابق وزیراعلیٰ آنجہانی ویر بھدر سنگھ کے بیٹے وکرما دتیہ سنگھ اور ان کی والدہ و ریاستی صدر کانگریس پرتبھا سنگھ کو امید تھی کہ انہیں وزیراعلیٰ بنایا جائے گا مگر ان کی جگہ سکھو کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔بادل ناخواستہ ماں بیٹے نے اعلیٰ کمان کا یہ فیصلہ قبول تو کر لیا مگر درپردہ سکھو حکومت کے خلاف سازش میں لگے رہے۔ چند ماہ قبل توایسا لگتا تھا کہ بی جے پی کا آپریشن لوٹس کامیا ب ہوجائے گا، مگر وکرمادتیہ سنگھ ممبران اسمبلی کی ضروری تعداد نہیں جٹا سکے، اس لیے یہ آپریشن فیل ہو گیا۔شملہ کی مسجد کو لے کر ہوئے تنازع میں وکرما دتیہ سنگھ گروپ کے ایک وزیر نے اسمبلی میں جو بیان دیا، وہ لگتا تھا کہ انہیں ناگپور سے لکھ کر دیا گیا ہے ۔اس مسجد کو لے کر ایک زبردست طومار کھڑا کیا گیا۔ آزادی سے بھی قبل تعمیر ہوئی اس مسجد کو غیر قانونی بتایا جانے لگا۔ دو لوگوں کے ایک معمولی جھگڑے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا اور نہ صرف شملہ بلکہ پورے ہماچل میں ایک طوفان بدتمیزی شروع کر دیا گیا جو بی جے پی کی پرانی اور آزمودہ سیاسی حکمت عملی ہے۔ شملہ مسجد کے انتظامیہ نے معاملہ فہمی اور دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے بنا منظوری تعمیر کی گئی مسجد کی اوپری دو منزلوں کو خود ہی منہدم کر دینے کا اعلان کر کے فرقہ پرستی کی آگ پر پانی ڈال دیا۔اس واقعہ سے ہماچل کی کانگریسی حکومت کے اندرونی اختلاف کھل کر سامنے آ گئے مگر دو ہاتھیوں کی لڑائی میں روندی جانے والی گھاس مسلمانوں کو بنا دیا گیا جبکہ ہماچل میں مسلم ووٹروں کی تعداد بمشکل 2 فیصدہوگی۔ ہماچل اسمبلی الیکشن میں ملی کامیابی کے بعد وزیراعلیٰ سکھو نے یہی کہا تھا کہ98فیصد ہندو آبادی والی ریاست ہماچل نے بی جے پی کو شکست دے کر سیکولر ازم کے نظریہ کو تقویت دی ہے۔ بی جے پی سکھو کے اس بیان کوغلط ثابت کرنا چاہتی ہے، جس میں وکرما دتیہ سنگھ جیسے لوگ اس کے مدد گار بنے ہوئے ہیں۔ ویسے وکرمادتیہ سنگھ کے بارے میں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ منڈی پارلیمانی حلقہ کی اپنی پشتینی سیٹ پر وہ بی جے پی کی نووارد اداکارہ کنگنا رناوت سے شکست کھا چکے ہیں، شاید اپنی شکست کے لیے وہ سکھو کو ذمہ دار سمجھ کر ان سے بدلہ بھی لینا چاہتے ہیں۔ بہرحال جو بھی ہو انہوں نے راہل کی کوششوں کو فلیتہ لگانے کی ہی کوشش نہیں کی بلکہ ہماچل کی پرسکون وادیوں میں فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے کا جرم کیا ہے۔
سکھو حکومت نے حالات کو قابو سے باہر نہیں جانے دیا۔ عوامی تنظیم ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) نے شملہ میں امن مارچ نکال کر فرقہ پرستی کی بھڑکتی آگ پر پانی ڈالا ہے لیکن بی جے پی اپنی چال میں کامیاب رہی ہے، ایک تو اس نے ریاست میں فرقہ پرستی کا بیج بو دیا، دوسرے کانگریس حکومت کی اندرونی کمزوری اور پھوٹ منظرعام پر لے آئی۔
بات ہماچل تک ہی محدود نہیں ہے، کانگریس کی دوسری ریاستی حکومتیں بھی راہل کے پیمانہ پر کھری نہیں اتر رہی ہیں۔ تلنگانہ کی حکومت نے ان فرقہ پرست غنڈوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جنہوں نے ایک اسکول میں زبردستی داخل ہو کر ایک کمرہ میں نماز پڑھ رہی مسلم بچیوں سے بد تمیزی کی، ان کو ہراساں کیا۔ یہ کھلا ہوا پاکسو ایکٹ کا معا ملہ ہے۔ کئی مہینہ گزر چکے ہیں مگر شاید ابھی کوئی گرفتاری بھی نہیں ہوئی۔ تلنگانہ میں جعفر آباد مسجد کے معاملہ میں بھی فرقہ پرست عناصر کی حرکتوں کونظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ادھر کرناٹک کی حکومت نے اس پرنسپل کو ریاست کے بیسٹ ٹیچر کا اعزاز دے کر مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے جس نے حجاب میں آنے والی مسلم طالبا ت کو کالج میں آنے سے روکنے کے لیے خود کالج کا پھاٹک بند کیا تھا۔
مدھیہ پردیش اسمبلی الیکشن سے قبل کمل ناتھ نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا نعرہ دینے والے بابا باگیشور کی کتھا کرا کر ہندوتو کا کارڈ کھیل کر ریاست میں پارٹی کا بھٹہ بٹھا دیا کیونکہ اگر عوام ووٹ ہندوتو کی بنیاد پر دیں گے تو اصلی ہندوتو وادی پارٹی بی جے پی کو ووٹ دیں گے، نرم ہندوتو والی کانگریس کو نہیں۔یہ معمولی سی بات کیوں کانگریس کے کچھ ’دگجوں‘ کی سمجھ میں نہیں آتی ؟
کانگریس میں سنگھی ذہنیت کے عناصر ہمیشہ پارٹی کے لیے درد سر رہے ہیں، اتنے ماہ و سال گزر جانے کے بعد یہی عناصر آج بھی پارٹی کو اس کے نظریات سے دور لے جانے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ صرف آنجہانی اندرا گاندھی نے ان کو پارٹی سے دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہر کر کے ان کا صحیح علاج کیا تھا، آج بھی ویسے ہی آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے تا کہ راہل کی محبت کی دکان پھل پھول سکے اور گاندھی نہرو کا ہندوستان کے لیے دیکھا گیا خواب شرمندۂ تعبیر ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS