کانگریس: آخر اس درد کی دوا کیا ہے

0

شاہنواز احمد صدیقی
کانگریس کی اندرونی سیاست ملک کی سیاست سے کم دلچسپ نہیں ہے۔ 2014 میں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد کانگریس میں کافی تبدیلی آچکی ہے اور بی جے پی کی قیادت والا این ڈی اے جس انداز سے کام کر رہا ہے اس پر وزیراعظم نریندرمودی اورامت شاہ کی گہری چھاپ نظر آرہی ہے۔ نئے دور کے چانکیہ کی طرح یہ دونوں لیڈر نہ صرف یہ کہ اپنی پارٹی کو مضبوط کر رہے ہیں بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کو کمزور کرنے کے عمل کو اس قدر مستقل مزاجی سے انجام دے رہے ہیں جس میں ان کے خود کے حلیف بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس ضمن میں مہاراشٹر کی شیوسینا جوکہ اکالی دل کی طرح بی جے پی کی سب سے قدیمی اور ہر موسم کی ساتھی پارٹیاں( اکالی دل شیوسینا) نہ بچ سکیں۔ پنجاب میں شرومنی اکالی دل کی کیا درگت ہے اس سے کون ناواقف ہے۔ بہار میں نتیش کمار نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی تھی کہ آپ بی جے پی کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں اپوزیشن پارٹی کے طورپر الگ نظریہ رکھنا کسی بھی بااختیار اور آزاد خیال پارٹی کے لئے آسان نہیں ہے۔ نتیش کمار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوںنے اسی نکتے کو سمجھ کراور شیوسینا کے حشرکو دیکھ کر بہار میں اپنا سیاسی موقف بدلا اور بی جے پی سے دامن چھڑا لیا۔ بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں کے لئے مرکزی تفتیشی ادارے سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کا بیجا استعمال کر رہی ہے۔ یہ بیجا استعمال ہر ریاست اور ہر دوست و دشمن کے خلاف ہورہا ہے۔ جس وقت بہار میں نتیش کمار کی کابینہ کی توسیع ہورہی تھی تو اسی دوران بہار کے کچھ لیڈروں کے گھروں پر چھاپے اس تاثر کو قوی کر رہے تھے۔ بہرکیف کانگریس کے سیاسی خلفشار کے پیچھے کچھ مبصرین اسی چانکیہ نیتی کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ غلام نبی آزاد کو بی جے پی نے کس انداز سے کانگریس پارٹی سے کاٹااور حالت یہ ہوگئی تھی کہ جب کانگریس صدر نے ان کو جموں وکشمیر کا اہم عہدہ سونپا تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔اس عہدہ کی پیشکش کے باوجود انہوںنے یہ شکوہ کیا کہ کانگریس کی اعلیٰ کمان یعنی گاندھی خاندان ان کو نظرانداز کر رہا ہے۔ یہ وہی غلام نبی آزاد تھے جوکہ پچھلے دنوں جھنڈہ لے کرگاندھی خاندان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ بہرکیف سیاست ناممکنات کا نام ہے۔ سیاست میں کوئی امکان بھی ناممکن نہیں ہے۔ آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دوست آج کے دشمن ۔ یہی سیاست کا اصول ہے۔ راجیوگاندھی کی شہادت کے بعد کانگریس اگرچہ غالب اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آگئی تھی مگر کوئی معقول لیڈرشپ نہ ہونے کی وجہ سے اور سونیا گاندھی کی قیادت اور سیاست سے تامل کی وجہ سے پارٹی نے نرسمہارائو کو پارلیمانی پارٹی کا لیڈر منتخب کرلیا اور اس طرح وہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ مگر نہرو-گاندھی خاندان کا ایک وفادار طبقہ اس بات کے انتظار میں رہا کہ کس طرح اس خاندان کے لیڈروں کو ایسے مقام پر فائز کردیا جائے۔ ایک مختصر وقفے کے بعد وہ دور آیا جب کانگریس پارٹی برسراقتدار آئی اس وقت سونیا گاندھی کو ملک کی باگ ڈور سونپنے کی بات ہوئی۔ 2004 میں پارلیمنٹ ہائوس کے سینٹر ہال میں پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوئی اس میں جس انداز میں تقریریں ہوئیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ نہرو گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس صفر ہے۔ مگر کانگریس پارٹی ہر اعتبار سے اور ہر دور میں اپنی سیاسی تدبر اور جادوئی انداز سے بڑی پارٹی بنے رہنے پر کامیاب رہی ہے۔2004کے بعد 2009کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے اقتدار میں زبردست طریقے سے واپسی کی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ دوبارہ عہدہ پر منتخب ہوئے تواس وقت کانگریس سے باہر جانے والے سیاسی ’عقاب‘ حاشیہ پر دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ کمزور مہاراشٹر کے لیڈر اور این سی پی سربراہ شردپوار دکھائی دیتے تھے۔ آج کانگریس پارٹی جس مقام پر ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جنریشنل شفٹ ہے۔ پرانے لیڈر نئی قیادت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلام نبی آزاد جیسا لیڈر پارٹی سے باہر ہے۔ اگرچہ ان کی کانگریس سے علیحدگی کے پس پشت ان کے کچھ ذاتی مفادات ریاستی (کشمیری) معاملات ہوسکتے ہیں۔اس سے پہلے امریندرسنگھ، سنیل جاکھڑ،کپل سبل اور اب شاید منیش تیواری پارٹی کو الوداع کہہ کر جاسکتے ہیں۔
سیاسی حلقوں میں کانگریس کے صدرکے الیکشن پر بحث ہورہی ہے۔ اس میں کانگریس کی موجودہ کارگزار صدر سونیاگاندھی کے قریبی اور وفادار سمجھے جانے والے اشوک گہلوت کو یہ اہم ذمہ داری ملنے کا امکان ہے۔ جبکہ کچھ حلقوں میںششی تھرور کا نام بھی اچھالا جارہا ہے۔ ششی تھرور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اقوام متحدہ کے انڈرسکریٹری کے عہدے سے سبکدوش ہوکر ہندوستان کی سیاست میں آئے ہیں۔ کیرالہ کی ترواننت پورم پارلیمانی حلقے سے انتخابات جیتنے والے تھرور دانشور ہیں اور ان کی بہت ساری کتابیںہیں۔ ان کی تقریریں اور ٹویٹ سرخیاں بٹورتے ہیں۔ آکسفورڈ طلبا یونین کے جلسہ میں ان کی تقریر نے انگریزوں کی بربریت کو موثر طریقہ سے طشت از بام کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے اس پرآشوب دور میں جب کانگریس کی اندرونی سیاست زیربحث ہو۔ راہل گاندھی جیسے سادہ لوح اور دوٹوک بات کہنے والے لیڈر کس طرح اپنی پارٹی کو کھڑا کرپائیںگے۔ راہل گاندھی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیدھی بات کرتے ہیں جبکہ سیاست کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں راہل گاندھی کا مقام کیا ہوگا یہ دیکھنے لائق ہوگا۔ اگرچہ انہوں نے ہندوستان میں نفرت کے ماحول کے خلاف مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس پارٹی بوڑھی ہوتی ہوئی قیادت اور پیچیدہ ہوتے ہوئے سیاسی ماحول میں کس طرح اپنا رول اداکرپاتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS