کانگریس: شکست کا دوسرا پہلو

0

پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اختتام پذیر ہوگئے۔ مدھیہ پردیش میں اقتدار بچانے جبکہ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اقتدار حاصل کرنے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب رہی۔ تلنگانہ میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ووٹوں اور اس کی سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے، البتہ میزورم میں وہ خسارے میں رہی۔ دوسری طرف راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اقتدار بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ مدھیہ پردیش میں اس کے لیے حالات سازگار نظر آرہے تھے لیکن وہاں اس کی کارکردگی مایوس کن رہی، البتہ تلنگانہ میں جیت اس کے لیے راحت افزا کہی جا سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تلنگانہ کی جیت ہی کانگریس کے لیے کافی ہے؟ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں شکست کیا اس کے لیے حوصلہ شکن نہیں ہے؟ بالکل حوصلہ شکنی کی بات ہے مگر اس شکست کا دوسرا پہلو بھی ہے اور اسے نظر انداز کرکے نتائج پر کوئی ٹھوس بات نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ اسمبلی انتخابات عام انتخابات کے،جن کے انعقاد میں زیادہ دن نہیں بچے ہیں، ’سیمی فائنل‘ کہے جا رہے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ کانگریس راجستھان میں ہار گئی لیکن کانگریس کے لیے اہم بات یہ ہوگی کہ راجستھان اسمبلی انتخابات میں اس کے ووٹوں میں 0.23 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2013 میں کانگریس کی جو دُرگت ہوئی تھی، اس بار نہیں ہوئی۔ 2013 میں وہ 96 سیٹوں سے 21 سیٹوں پر سمٹ گئی تھی لیکن اس بار اسے 31 سیٹوں کا ہی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور وہ 100 سیٹوں سے 69 سیٹوں پر آگئی ہے۔ مدھیہ پردیش میں سیٹوں کے معاملے میں کانگریس کو بڑا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہیمگر وہاں بھی اس کے ووٹوں میں 0.44 فیصد کی ہی کمی آئی ہے۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس کو تقریباً نصف سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہیمگر وہاں بھی اس کے ووٹوں میں 0.81 فیصد یعنی ایک فیصد سے بھی کم کی ہی کمی آئی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اتنے کم فیصد ووٹ کم ہو جانے کے باوجود کانگریس کی سیٹیں اتنی کم کیوں ہو گئیں؟ اس کا جواب جاننے کے لیے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج کو سمجھنا ضروری ہے۔ 2023 کے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ووٹوں میں صرف 0.35 فیصد کی ہی کمی آئی تھی لیکن اسے 38 سیٹوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ 2018 کے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے تقابل میں کانگریس 55 اضافی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی، کیونکہ اس کے ووٹوں میں 4.74 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح چھتیس گڑھ میں کانگریس کے ووٹوں میں ایک فیصد سے بھی کم کی کمی ہوئی مگر بی جے پی کے ووٹوں میں 13.3 فیصد کا اضافہ ہوا اور اس کی وجہ سے 2018 کے چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات کے مقابلے اسے 39 اضافی سیٹیں ملیں۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ووٹوں میں نصف فیصد سے بھی کم کی کمی ہوئی مگر بی جے پی کے ووٹوں میں 7.6 فیصد کا اضافہ ہو گیا اور یہی وجہ ہے کہ 2018 کے راجستھان اسمبلی انتخابات کے تقابل میں وہ 54 اضافی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اسی طرح راجستھان میں کانگریس کے ووٹوں میں کچھ اضافہ ہوا مگر بی جے پی کے ووٹوںمیں 3.61 فیصد کا اضافہ ہو گیا اور اسی وجہ سے 2018 کے راجستھان اسمبلی انتخابات کے مقابلے اسے 42 اضافی سیٹیں ملیں، البتہ تلنگانہ میں ایک طرف بی آر ایس کے ووٹوں میں 9.55 فیصد کی زبردست کمی ہوئی تو دوسری طرف کانگریس کے ووٹوں میں 10.97 فیصد کا زبردست اضافہ ہوا، البتہ میزورم میں کانگریس کے ووٹوں میں 9.16 فیصد کی اور سیٹوں میں 4 سیٹوں کی زبردست کمی ہوئی۔ یہاں بی جے پی سیٹ جیتنے کے معاملے میں فائدے میں رہی لیکن ووٹوں کے حصول کے معاملے میں خسارے میں رہی۔ نتائج کو دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس کے لیے اطمینان کی بات یہ ہوگی کہ تلنگانہ اور راجستھان میں اس کے ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں زیادہ ووٹ فیصد کم نہیں ہوئے ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS