سیاست میں صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لینے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن صحیح وقت پر صحیح اتحاد سے وابستہ ہونے کی بھی کم اہمیت نہیں۔ اتحاد بدلتے رہنا بھلے ہی اخلاقی طور پر ٹھیک نہ ہو لیکن کچھ پارٹیاں بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے اتحاد بدل دیتی ہیں تاکہ اقتدار میں رہیں۔ کئی بار پارٹیاں اپنی بقا کے لیے بھی اتحاد بدلتی ہیں۔ اکثر انتخابات کے قریب آنے پر نئے اتحاد بنتے ہیں، پرانے اتحاد کا دائرہ کم یا وسیع ہوتا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کو چونکہ ایک سال بھی نہیں بچا ہے اور ایسی خبریں آرہی ہیں کہ لوک سبھا انتخابات مقررہ وقت سے پہلے کرائے جا سکتے ہیں تو پارٹیوں کا سرگرم ہونا فطری ہے۔ کئی پارٹیاں تو پہلے سے ہی کافی متحرک ہیں۔ ان میں جے ڈی (یو) اور آر جے ڈی شامل ہیں۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کی تشہیربی جے پی اورکانگریس نے جتنے پرجوش طریقے سے کی، دونوں پارٹیوں کے بڑے لیڈروں نے جتنی محنت کی، اسے دیکھتے ہوئے یہی لگتا تھا کہ لوک سبھا انتخابات کی تیاری شروع کی جا چکی ہے۔ کانگریس کے لیے کرناٹک اسمبلی انتخابات کی جیت کی بڑی اہمیت تھی تو ان انتخابات میں جیت کی اہمیت بی جے پی کے لیے بھی کم نہیں تھی۔ جنوبی ہند کی ریاستوں میں کرناٹک ہی واحد ایسی ریاست تھی جہاں اس کی حکومت تھی اور اس کی ہار کا مطلب ہر اس شخص کے لیے سمجھنا ناقابل فہم نہیں جو سیاست کی ذرا سی بھی سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ خیال یہ بھی ہے کہ لوک سبھا انتخابات کا اصل سیمی فائنل کرناٹک اسمبلی انتخابات نہیں تھا، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات ہوں گے لیکن وقت سے پہلے اگر لوک سبھا انتخابات کرا دیے گئے تو پھر حالات مختلف ہوں گے، چنانچہ بغیر وقت گنوائے اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو رہی ہیں اور ان کے اتحاد میں بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ نتیش کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان پل کی طرح کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے ایک طرف یو پی اے کی توسیع کا امکان بڑھتا جا رہا ہے اور یہ کانگریس کے لیے خوش آئند بات ہے تو دوسری طرف بی جے پی کے لیے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
بی جے پی کے لیے یہی ایک مشکل نہیں ہے کہ ہماچل پردیش میں اس کی حکومت تھی اور اب نہیں ہے، کرناٹک میں اس کا اقتدار تھا اور اب نہیں ہے، بہارمیں وہ جے ڈی (یو )کے ساتھ حکومت میں تھی اوراب نہیں ہے، مشکل یہ ہے کہ مہاراشٹر میں اس نے حکومت بنالی مگر شیو سینا اس کے ساتھ نہیں، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور کانگریس کے ساتھ ہے، شمال مشرق کی ریاستوں میں وہ گزشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن اس کا ووٹ فیصد کم ہوا ہے، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں پارٹی کے اندرونی مسئلے ہیں تو مشکل یہ بھی ہے کہ بی جے پی کرناک میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 28 میں سے 25، مہاراشٹر میں 48 میں سے 23، بہار میں 40 میں سے 17 سیٹیں جیتی تھیں مگر اس وقت مہاراشٹر میں شیو سینا اس کے ساتھ تھی اور ادھر بہار میں جے ڈی (یو) کا ساتھ اسے حاصل تھا اور اب یہ دونوں پارٹیاں کانگریس کے ساتھ ہیں۔ مہینوں پہلے سے نتیش مختلف پارٹیوں سے مل کر اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ بی جے پی کی سربراہی والے این ڈی اے کے خلاف بڑا اتحاد بنے، کامیابی کے حصول کے لیے نتیش کمار کا فارمولہ یہ ہے کہ کسی سیٹ پراتحاد کی طرف سے ایک ہی امیدوار اتارا جائے اوریہ ممکن تبھی ہوگا جب سیٹوں کی تقسیم پہلے سے ہوچکی ہوگی، تذبذب کی حالت نہیں ہوگی۔ اب جے ڈی(یو) کے قومی ترجمان کے سی تیاگی کا کہنا ہے کہ نتیش کمار کے ساتھ ہوئی میٹنگ میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے اس فارمولہ پر مہر ثبت کر دی ہے۔ کانگریس بھی اس فارمولے کو ماننے کے لیے تیار ہے۔ اس سلسلے میں 12 جون کو پٹنہ میں اپوزیشن پارٹیوں کی ایک اہم میٹنگ ہونی ہے۔ کے سی تیاگی کے مطابق، میٹنگ میں شرکت کے لیے تقریباً دو درجن پارٹیوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ 6 غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی اتحاد والی پارٹیاں ہیں، البتہ ان پارٹیوں کے لیڈروں کو مدعو نہیں کیا گیا ہے جنہوں نے معذرت کی ہے۔ مطلب یہ کہ 12 جون کو یہ پتہ چل جائے گا کہ نتیش کمار کی کوشش کتنی رنگ لائی ہے اور کانگریس کے اتحاد میں آنے کے لیے کتنی پارٹیاں تیار ہوئی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ پچھلی بار ان پارٹیوں نے مجموعی طور پرکتنے فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور اندازہ یہ بھی لگانا آسان ہوگا کہ کانگریس کی سربراہی والے یا بی جے پی کی سربراہی والے اتحاد کے لیے اگلے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کا حصول کتنا مشکل ہوگا!
[email protected]
نتیش ’فارمولہ‘ پر کانگریس کی مہر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS