مکیش بال یوگی
دہلی اسمبلی الیکشن کے دستک دیتے ہی اپوزیشن اتحاد ایک بار پھر سے کٹی پتنگ ہوگیا ہے، جو کبھی اس دیوار اور کبھی اس ستون سے ٹکرا کر لُٹی پٹی سی نئے نجات دہندہ (Savior) کی راہ دیکھ رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی(آپ) کے سربراہ اروند کجریوال نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ ان کی پارٹی دہلی اسمبلی الیکشن میں کسی دوسری پارٹی سے اتحاد نہیں کرے گی۔ سبھی70سیٹوں پر خود امیدوار اتارے گی۔ مجبوری میں کانگریس لیڈران کو بھی سبھی سیٹوں پر امیدوار دینے کا اعلان کرنا پڑا ہے۔
پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک بی جے پی یا بی جے پی-این ڈی اے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کانگریس اور عام آدمی پارٹی ایک ساتھ نظر تو آتی ہیں، لیکن الیکشن آتے ہی دونوں کی راہیں الگ ہوجاتی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی حکمت عملی بنانے والوں کا ماننا ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت کے خلاف بھڑنے میں اتحاد کے محاذ پر تو دونوں کے ساتھ سے عوام میں ماحول بنتا ہے، لیکن انتخابی تال میل کرنے سے عام آدمی پارٹی کو کوئی خاص فائدہ نہیں مل پاتا ہے۔ اس بار بھی عام آدمی پارٹی کو ڈر ہے کہ کانگریس کا آدھار ووٹ ’آپ‘ کو ٹرانسفر ہونے کے بجائے کہیں بی جے پی کو فائدہ نہیں پہنچا دے۔
ویسے بھی گزشتہ الیکشن کے اعدادوشمار یہی بتارہے ہیں کہ دہلی میں کانگریس کا مینڈیٹ مسلسل کمزورہورہا ہے۔ 2024کے لوک سبھا الیکشن میں دہلی میں کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ بی جے پی سبھی 7سیٹیں جی گئی۔ عام آدمی پارٹی بھی خالی ہاتھ رہی۔ 2019کے لوک سبھا الیکشن میں بھی کانگریس کو 23فیصد ووٹ ملنے کے باوجود ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔ 2014کے لوک سبھا الیکشن میں بھی کانگریس پارٹی 15فیصد ووٹ پانے کے باوجود ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی تھی۔ وہیں 2009میں کانگریس دہلی کی ساتوں لوک سبھا سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی، ساتھ ہی ووٹوں کی 57فیصد حصہ داری بھی حاصل کی تھی۔ اس طرح کانگریس کے ووٹوں کا منتشر ہونا عام آدمی پارٹی کی ڈوبتی نیا پر سوار ہونے جیسا لگ رہا ہے۔ 2013کے اسمبلی الیکشن میں کانگریس کے صفائے کے بعد بی جے پی کو دور رکھنے کے لیے عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے مل کر حکومت بنائی تھی۔ لیکن یہ حکومت 49دنوں تک ہی چل سکی۔ بعد میں 2015میں عام آدمی پارٹی خود کی بدولت اقتدار میں آئی اور کانگریس 2015 اور 2020، دونوں اسمبلی کی ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی۔ اب تو عام آدمی پارٹی کو دہلی میں کانگریس ٹکر میں ہی نظر نہیں آتی ہے۔ واضح ہے کہ عام آدمی پارٹی اپنا اہم مقابلہ بی جے پی کے ساتھ ہی مان رہی ہے اور اپنی بدولت کانگریس کو ’جیون دان‘ دینے سے پرہیز کررہی ہے۔
دوسری پارٹیاں بھی کانگریس کا ساتھ دینے کو گھاٹے کا سودا سمجھ رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ عام آدمی پارٹی نے پہلی بار کانگریس کو ٹھینگا دکھایا ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی پنجاب اسمبلی الیکشن میں کانگریس سے اتحاد کیے بغیر الیکشن جیت کر اور وہاں حکومت بناکر دِکھا چکی ہے۔ اس معاملہ میں کانگریس بھی دودھ کی دھلی نہیں ہے، بلکہ لوک سبھا الیکشن کے فوراً بعد ہوئے ہریانہ اسمبلی الیکشن میں خود کو اقتدار میں آنا طے مان کر کانگریس کے لیڈر عام آدمی پارٹی سے اتحاد کی مخالفت میں مسلسل بیان دیتے رہے۔ آخرکار دونوں پارٹیوں میں اتحاد نہیں ہوسکا اور دونوں ہی پارٹیاں اقتدار میں نہیں آسکیں۔ اس طرح کی صورتحال پہلے گجرات سمیت دوسری کئی ریاستوں کے انتخابات میں بھی رہی ہے۔ دونوں ہی پارٹیوں کے آپس میں سیٹوں کے تال میل نہیں ہونے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی دونوں کے اپنے اپنے تعصبات(prejudice) ہیں۔ عام آدمی پارٹی یہ مان کر چلتی ہے کہ کانگریس کا ملک میں کہیں کوئی مینڈیٹ نہیں ہے، یا تو وہ علاقائی پارٹیوں کی بیساکھی پر چل رہی ہے یا پھر اسے ناراض ووٹوں کا فائدہ مل جاتا ہے۔
بہار اسمبلی الیکشن تقریباً 10ماہ بعد ہے۔ لیکن ابھی سے ہی کانگریس کے لیڈر اپنے اعلیٰ کمان کی جگہ آرجے ڈی سپریمو کی چوکھٹ پر زیادہ ماتھا ٹیک رہے ہیں کیوں کہ انہیں لگ رہا ہے کہ اسمبلی الیکشن کی رکاوٹ کو لالو-تیجسوی کے بغیر نہیں پار کرسکتے۔ کانگریس کی جانب سے پورنیا لوک سبھا سیٹ سے پپویادو کو اتارنے کی پوری تیاری کے باوجود آر جے ڈی کی ہری جھنڈی نہیں ملنے کی وجہ سے کانگریس انہیں ٹکٹ نہیں دے سکی۔ آخرکار، پپوجیتے، لیکن آزاد رکن پارلیمنٹ کے طور پر۔ کانگریس پارٹی کے ایک پروگرام میں تو لالوپرساد نے بہار کے ریاستی کانگریس صدر اکھلیش سنگھ کے بارے میں صاف طور پر کہا کہ انہیں راجیہ سبھا رکن کانگریس سے نہیں، بلکہ آر جے ڈی نے بنایا ہے۔
اترپردیش میں سماجوادی پارٹی(ایس پی) کی جانب سے بھی بار بار اتحاد ختم کردینے کا انتباہ بھی دیا جاتارہتا ہے۔ کچھ اور بھی ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں کانگریس کو اپنے جونیئر پارٹنر کے طور پر بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
آخر، ان حالات میں کانگریس جائے تو جائے کہاں؟ طویل عرصہ تک ملک پر حکومت کرنے اور زیادہ تر ریاستوں میں اقتدار پر قابض رہی کانگریس کی یہ صورتحال ایک دن میں نہیں بنی ہے۔ کانگریس کے ووٹ بینک کے تین اہم بنیادیں- دلت، مسلم اور اعلیٰ ذات- اس کے ہاتھ سے پوری طرح سے نکل چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں علاقائی پارٹیوں کی بدولت اپنے وجود کے لیے جدوجہد کرنا کانگریس کی مجبوری بن چکی ہے۔ ایسے میں پالیسی کے متبادل دے کر جامع اقدام کرنا اور جدوجہد کے راستے نئی پہچان بناکر نئے سرے سے مینڈیٹ تیار کرنے کا راستہ ہی کانگریس کے پاس بچا ہے۔