عبیداللّٰہ ناصر
کانگریس کے صدر کو لے کرکافی لمبے وقفہ سے بے یقینی کی جو صورت حال تھی، وہ ختم ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ کم و بیش یہ بھی یقینی ہوگیا ہے کہ نہ صرف راہل گاندھی بلکہ ان کے خاندان کا بھی کوئی شخص پارٹی کا صدر نہیں ہوگا۔کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے بعد تنظیمی انتخابات کے ذمہ دار مدھو سودن مستری نے پارٹی کے صدر کے انتخاب کے پرو گرام کا اعلان کردیا جس کے مطابق اکتوبر کے آخر تک پارٹی کو نیا صدر مل جائے گا۔اس الیکشن کے سلسلہ میں فی الحال تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، سوائے اس کے کہ نہرو گاندھی خاندان کا کوئی شخص صدر نہیں ہوگا مگر کون ہوگا، یہ قیاس کرنا بھی مشکل ہورہا ہے۔آثار یہی ہیں کہ اس بار پھر باقاعدہ ووٹنگ کے ذریعہ نئے صدر کا انتخاب ہوگا حالانکہ اتفاق رائے بنانے کی بھی کوشش ہو سکتی ہے لیکن اگر باغی گروپ یعنی جی23نے ہمت دکھائی تو اتفاق رائے نہیں ہوپائے گا اور پھر چناؤ ہی ہوگا، ویسے پارٹی کی صحت کے لیے یہی بہتر ہے کہ نیا صدر انتخاب کے ذریعہ چنا جائے تاکہ اس پر کسی گروپ کا ٹھپہ نہ لگے اور وہ پورے اختیار کے ساتھ پارٹی کی قیادت کرے۔
اپنی قریب چار دہائیوں کی صحافتی زندگی میں میں نے صرف دو پارٹیوں میں اس طرح بیلٹ کے ذریعہ صدر کا انتخاب ہوتے دیکھا ہے، پہلا انتخاب تھا جنتا دل میں جس میں لالو یادو کا شرد یادو سے مقابلہ ہوا تھا مگر یہ انتخاب پارٹی کی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوا تھا۔لالو یادو نے شکست سے تلملا کر اپنی الگ پارٹی راشٹریہ جنتا دل بنا لی تھی اور پھر تو جنتا دل کی حالت جنتا پارٹی جیسی ہوکر قصہ پارینہ بن گئی۔دوسری بار مقابلہ کانگریس میں ہی نرسمہا راؤ اور شرد پوار کے درمیان دیکھا جس میں شرد پوار کو شکست ہوئی لیکن پارٹی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور شرد پوار نرسمہا راؤ کی کابینہ میں وزیر دفاع کے عہدہ پر آخر تک برقرار رہے۔ کانگریس میں ہی دوسری بار مقابلہ سونیا گاندھی کا آنجہانی راجیش پائلٹ سے ہونا تھا مگر انتخابی مہم کے دوران ہی سڑک حادثہ میں ان کی موت ہو گئی مگر الیکشن ملتوی نہیں ہوا اور راجیش پائلٹ کی جگہ میدان میں اترے کنور جتندر پرساد جنہیں شکست ہوئی اور سونیا گاندھی پارٹی کی باقاعدہ منتخب صدر بنیں۔اس الیکشن کے سلسلہ میں راجیش پائلٹ لکھنؤ آئے تھے۔کانگریس پارٹی کے ریاستی دفتر میں ان کی پریس کانفرنس تھی، اس پریس کانفرنس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ’’میں پارٹی میں چناؤ لڑ رہا ہوں پارٹی سے نہیں۔نتیجہ آنے کے بعد ہم سب مل کر پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔‘‘پھر جتندر پرساد بھی لکھنؤ آئے، انہوں نے بھی پریس کانفرنس کی، ان سے میں نے ہی سوال پوچھا تھا : ’’کنور صاحب چناؤ بعد کیا ہوگا؟‘‘، ان کا جواب تھا: ’’کچھ نہیں ہوگا، ایک جیتے گا، ایک ہارے گا اور اس کے بعد سب مل کر پارٹی کے لیے کام کریںگے۔‘‘ مطلب یہ کہ مقابلہ آرائی تو تھی لیکن مدمقابل میں کوئی تلخی نہیں تھی۔ الیکشن کے بعد سونیا گاندھی نے اپنے حریف جتندر پرساد کو اپنا سیاسی مشیر بنا لیا تھا۔بدنصیبی سے کچھ دنوں بعد ہی دل کا دورہ پڑنے سے جتندر پرساد کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔سونیا گاندھی نے دونوں راجیش پائلٹ اور جتندر پرساد کے اہل خاندان کی پوری سرپرستی کی، دونوں کے لڑکوں جتن پرساد اور سچن پائلٹ کو کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا ممبر بنایا، مرکزی وزیر بنایا، پارٹی میں اعلیٰ عہدے دیے۔یہ بات الگ ہے کہ جتن پرساد نے سونیا گاندھی کے احسان کو فراموش کرکے بی جے پی جوائن کرلی اور مرکزی کے بجائے ریاستی وزیر بن کر خوش ہیں۔ سچن پائلٹ ابھی کانگریس میں ہی ہیں مگر ناراض ہیں حالانکہ ان کی ناراضگی نہ پارٹی سے ہے اور نہ ہی نہرو گاندھی خاندان سے، بلکہ ان کی ناراضگی راجستھان کی سیاست اور اشوک گہلوت سے ہے مگر وہ پارٹی چھوڑ جائیں گے، فی الحال اس کا امکان نہیں دکھائی دیتا۔
کانگریس آج اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کا ووٹ بینک کھسکتا جا رہا ہے، اس کے پرانے اور اس سب سے زیادہ فائدہ اٹھا چکے لیڈران اس کے دشمنوں کی صف میں شامل ہو ر ہے ہیں۔مودی حکومت، آر ایس ایس اور حکومت کا میڈیا دن رات اس کی قبر کھودنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کا خزانہ خالی ہے کیونکہ مودی حکومت کی ڈر سے کوئی کارپوریٹ ہاؤس اسے چندہ نہیں دے رہا ہے۔ ویسے بھی پولیٹیکل فنڈنگ کا86فیصدحصہ صرف بی جے پی کو مل رہا ہے، باقی 14 فیصد میں دیگر سبھی پارٹیاں ہیں۔سونیا گاندھی کی صحت جواب دے رہی ہے۔راہل گاندھی نے پارٹی کی قیادت سنبھالی جس کے دوران پارٹی کو مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور گوا میں کامیابی ملی لیکن ایک شاطرانہ منصوبہ کے تحت میڈیا نے اس کامیابی کو مقامی لیڈروں کے مرہون منت قرار دیا یعنی شکست راہل کی وجہ سے اور کامیابی مقامی لیڈروں کی وجہ سے۔ ان کی قیادت میں پارلیمانی الیکشن بھی کانگریس بہت اچھا لڑی لیکن پلوامہ نے بازی مودی کے حق میں کردی جس کے بعد راہل نے شکست کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔اس انتخابی مہم کے دوران ہی راہل کو یہ بھی احساس ہو گیا کہ خود ان کی پارٹی کا ہی ایک طبقہ ان کی پیٹھ میں چرا گھونپ رہا ہے جس سے بد دل ہو کر انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ اور ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد کانگریس کا اگلا صدر نہیں ہوگا، بحالت مجبوری کانگریس ورکنگ کمیٹی نے سونیا گاندھی سے منت سماجت کر کے انہیں عبوری صدر بننے پر راضی کر لیا مگر یہ عبوری وقفہ تین سال تک کھنچ گیا اور اب جا کر اللہ اللہ کر کے صدر کے انتخاب کا اعلان ہوا۔
اس درمیان پارٹی میں سب سے اہم ڈیولپمنٹ ’پارٹی‘ میں سونیا راہل مخالف گروپ کا ابھرنا تھا، اندرا گاندھی کے ابتدائی دنوں میں جیسے انڈیکیٹ سنڈیکیٹ قریب قریب ویسا ہی گروپ 23کے نام سے بنا جس نے پارٹی کی حالت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے پارٹی کے تنظیمی انتخابات جلد کرا کے صدر کے سلسلہ میں جاری تعطل ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ بظاہر اس مطالبہ میں کچھ بھی غلط نہیں تھا لیکن ان لیڈروں کا ما فی الضمیرکچھ اور ہی تھا، پارٹی کے سب سے سینئر لیڈر اور بغیر کوئی الیکشن لڑے پارٹی اور سرکار کے ہر عہدہ پر فائز رہ چکے غلام نبی آزاد نے پارٹی سے مستعفی ہو کر اور اپنے خط میں نہایت ناقابل قبول الزام لگا کر اور کافی حد تک غیر مہذب الفاظ کا استعمال کرکے پانچ صفحات کا ایک خط سونیا گاندھی کو لکھا، اگر آزاد صاحب کو اس پارٹی سے ہمدردی ہوتی جس نے انہیں پچاس سال تک ہر طرح سے نوازا تھا تو وہ مستعفی ہونے کے بجائے صدر کا چناؤ لڑتے اور کامیاب ہو کر پارٹی کو نئی زندگی دیتے لیکن اس کے برخلاف انہوں نے بہت مشکل دور میں پارٹی کے ساتھ بے وفائی کر کے خود کو رسوا کرلیا، تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ اب سنا ہے کہ وہ جموں کشمیر میں اپنی پارٹی بنانے جا رہے ہیں، ہم تو اسے ان کی بد نصیبی ہی سمجھتے ہیں، ایک طرف انہوں نے بدنامی کا طوق پہنا، دوسری طرف قومی لیڈر سے علاقائی لیڈر بننے جا ر ہے ہیں۔
بہرکیف ’دیر آید درست آید‘ اب کانگریس کے نئے صدر کا انتخاب ہونا ہے، اس سلسلہ میں کئی نام سیاسی فضا میں گردش کر رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام کی نظر بھی اس انتخاب پر لگی ہے جس میں کانگریس کے کٹر مخالفین بھی شامل ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس اب بھی عوام کے دلوں کے کسی کونے میں موجود ضرور ہے۔ کانگریس صدر کے انتخاب کے ممکنہ امیدواروں میں فی الحال چار نام ہی چرچا میں ہیں، کیرالہ کے ششی تھرور، راجستھان کے اشوک گہلوت، کرناٹک کے ملیکا رجن کھڑگے اور بہار کی میرا کمار۔باغی گروپ کے منیش تیواری نے اس الیکشن پر سوال اٹھا کر اور الیکٹورل لسٹ پارٹی کی ویب سائٹ پر ڈالنے کا مطالبہ کر کے اشارہ دیا ہے کہ شاید جی23 انہیں امیدوار بنائے حالانکہ گزشتہ دنوں پنجاب کے دورہ پر گئے وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات کے بعد ان کے بی جے پی میں جانے کا بھی قیاس لگایا جا رہا ہے۔
سیاسی حلقوں میں سب سے زیادہ چرچا اشوک گہلوت کے نام کی ہو رہی ہے حالانکہ انہوں نے خود ابھی تک ایسا کوئی عندیہ ظاہر نہیں کیا ہے۔انہیں سونیا گاندھی کا قریبی سمجھا جاتا ہے، وہ بہت سینئر لیڈر ہیں، راجستھان کے کئی بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، ان کا تعلق پسماندہ طبقہ سے ہے لیکن خود نریندر مودی بھی پسماندہ طبقہ سے آتے ہیں، اس لیے اس طبقہ پر اشوک گہلوت زیادہ اثرانداز نہیں ہو سکتے، ویسے بھی ہندو پسماندہ طبقہ کبھی کانگریس کا ووٹ بینک نہیں رہا اور ہمیشہ لوہیا چرن سنگھ پھر ملائم اور لالو کے ساتھ رہا مگر آج مودی کی وجہ سے بی جے پی کا سب سے مضبوط ووٹ بینک ہے۔ ہندی بیلٹ کے ہونے کے باوجود اشوک گہلوت تقریر کے معاملہ میں کمزور پڑ جاتے ہیں، دوسرے سچن پائلٹ سے ان کا36کا آنکڑا ہے، یہ بھی ان کے لیے ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔ دوسرے نمبر پر آتے ہیں ششی تھرور جو یہ چناؤ لڑنے کا عندیہ ظاہر بھی کر چکے ہیں۔وہ نہ صرف ایک تیز طرار لیڈر ہیں، پکے سیکولر اور نہرو وادی ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، اپنی قابلیت کا ڈنکا قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر منوا چکے ہیں، ان کی شناخت بھی ملکی سرحد سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔ اپنی اہلیہ سنندا پشکر کی موت کو لے کر وہ قانونی پچڑے میں پڑ گئے تھے مگر اب بری ہو چکے ہیں۔ وہ اخبارات کے سیاسی، معاشی اور خارجی امور کے صفحات پر ہی نہیں بلکہ پیج تھری پر بھی خوب جگہ پاتے ہیں جو ان کی ایک اضافی قابلیت کہی جاسکتی ہے۔ ایک سیاسی مبصر نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ ششی تھرور کے پاس خواتین کا بھی ایک مضبوط ووٹ بینک ہے جو شاید اور کسی لیڈر کے پاس نہیں ہے۔ لیکن مذہب اور ذات پات کے مکڑ جال میں پھنسی ہندوستان کی سیاست میں قابلیت، صلاحیت، مقبولیت سے زیادہ مذہب اور ذات کو دیکھ کر ووٹ دینے کے چلن میں شسی تھرور جیسے مذہب، ذات پات اور علاقائی عصبیت سے بلند لیڈر کے لیے جگہ بنا پانا بہت مشکل ہے، اگر انہوں نے کیرالہ کے بجائے ہندی بیلٹ سے الیکشن لڑا ہوتا تو ان کا لوک سبھا پہنچنا ہی مشکل ہو جاتا۔
باقی جو دو نام بچتے ہیں، وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک صدر کانگریس بنتا ہے تو وہ بی جے پی کے لیے خاصی مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔ یہ ہیں ملیکا رجن کھڑگے اور میرا کمار، یہ دونوں درج فہرست ذات جسے عام بول چال میں دلت کہا جاتا ہے، اس طبقہ سے آتے ہیں۔ملیکا رجن کھڑگے کا سیاسی ریکارڈ بہت زبردست ہے، وہ کرناٹک اسمبلی کے سات بار رکن ر ہے پھر وہاں سے دو بار لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے، وہ اپنی زندگی میں صرف ایک بار گزشتہ پارلیمانی الیکشن چند ہزار ووٹوں سے ہارے ہیں۔وہ دو بار مرکز میں وزیر، ایک بار لوک سبھا میں کانگریس پارلیمانی پارٹی کے لیڈر رہے، اس بار سونیا گاندھی نے انہیں راجیہ سبھا کا رکن ہی نہیں بلکہ وہاں حزب اختلاف کا لیڈر بھی بنایا۔وہ جنوبی ہند کی زبانوں کے علاوہ ہندی، اردو، انگریزی بھی فراٹے سے اور بہت دھاکڑ ہو کر بولتے ہیں۔ مودی کے پہلے دور میں شکست خوردہ اور پست حوصلہ ہوچکی کانگریس کی ایوان میں انہوں نے جس طرح قیادت کی، اس کی تعریف مخالفین بھی کرتے ہیں ۔
دوسرا نام ہے میرا کمار کا، یہ کبھی کانگریس کے بہت ہی قدآورلیڈر اور سابق نائب وزیراعظم بابو جگجیون رام کی بیٹی ہیں، خود وزارت خارجہ میں اعلیٰ افسر تھیں، وہاں سے سبکدوشی کے بعد کانگریس کے ٹکٹ پر اپنے والد کی روایتی سیٹ ساسارام سے لوک سبھا پہنچیں، مرکز میں وزیر ہوئیں اور لوک سبھا کی پہلی خاتون اسپیکر ہونے کا شرف حاصل کیا۔حالانکہ اگر دونوں کی سیاسی پروفائل دیکھی جائے تو کھڑگے جی بھاری پڑیں گے پھر بھی ان دونوں میں سے اگر کوئی ایک کانگریس کا صدر ہوتا ہے تو یہ نہ صرف کانگریس کی تاریخ کا پہلا دلت طبقہ کا صدر ہوگا جو گاندھی اور امبیڈکر کے خوابوں کی تعبیر ہوگی۔اس سے پورے ملک کے 22فیصد دلتوں میں اچھا پیغام جائے گا جو مایاوتی کی خودغرضانہ سیاسی اچھل کود سے دلبرداشتہ ہو کر بی جے پی کی طرف چلا گیا ہے۔22 فیصد دلت اور15فیصد مسلم کے سیاسی اشتراک سے ملک کی سیاسی فضا بدل سکتی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]