دیو ساگر سنگھ
کانگریس پارٹی میں جتنی چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی غیر جانبداربھی رہتی ہیں۔ اس کی ایک مثال رائے پور میں پارٹی کے اجلاس میں کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کے انتخابات نہ کرانے کا فیصلہ ہے۔ حال ہی میں جب ملکارجن کھڑگے کو پارٹی صدر منتخب کیا گیا تو پہلے گاندھی پریوار کی قیادت کی تقریباً 3 دہائیوں بعد اعلیٰ قیادت پر قابض ہونے والے پہلے ’غیر گاندھی‘ کے طور پر ملکا رجن کھڑگے کا استقبال کیاگیا۔سی ڈبلیو سی، سنٹرل الیکشن کمیٹی اور کئی دیگر فورمز کے انتخابات کروانے سے کانگریس پارٹی کی جمہوریت سازی کی امیدیں پیدا ہوئیں تھیں۔ جب پارٹی کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے سی ڈبلیو سی کے انتخابات نہ کرانے کا فیصلہ کیا تو وہ واضح طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آئی۔ راہل گاندھی سمیت سرکردہ لیڈران پہلے ہی عوامی طور پر کہہ چکے ہیں کہ پارٹی کو پھر سے مضبوط کرنے کا طریقہ، سبھی پارٹی سطح پر جمہوری طریقے سے انتخاب کرانا ہے۔صدر کے طور پر کھڑگے کے انتخاب سے پہلے کانگریس کے ایک طبقے کو جو جی -23 کے نام سے جانا جاتا ہے،اسے باغی مانا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاندھی خاندان صدارتی انتخاب کے عہدے سے باہر ہوا۔ یہ بڑے پیمانے پر سمجھا جاتا تھا کہ گاندھی پریوار، سی ڈبلیو سی انتخابات سے بھی دور ہوجائے گا، جس سے کھڑگے کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ کنوونشن میں جو ہوا وہ ٹھیک اس کے برعکس تھا۔ اسٹیئرنگ کمیٹی نے سبھی سابق پارٹی صدور کے ساتھ ساتھ سابق وزرائے اعظم کو نامزدسی ڈبلیو سی میں شامل کرنے کے لیے ضابطوں میں ترمیم کیا۔ اس ترمیم کی بنیاد پر سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سی ڈبلیو سی کے رکن بن گئے ہیں۔ درحقیقت سی ڈبلیو سی پر گاندھی خاندان کے افراد کا غلبہ برقرار رہے گا۔ اب پارٹی کی تنظیم چلانے میں کھڑگے کی کھلی چھوٹ‘ پر سوالات اٹھنے لازمی ہیں۔ پارٹی کے صدر کو تمام سی ڈبلیو سی ممبروں کو نامزد کرنے کا اختیار دینے کا فیصلہ ان تمام تقرریوں میں گاندھی خاندان کو ’بیک ڈور‘ طاقت دیناہے۔ ویسے بھی، کھڑگے نے انتخاب کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ ’سونیا گاندھی اور راہل سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے‘۔ سی ڈبلیو سی کے انتخابات نہ کرانے کے لیے جو دلائل پیش کی گئی ہیں وہ مکمل طور پر دکھاوٹی ہیں۔ یہ دلیل دی گئی کہ انتخابات کے انعقاد کا مطلب ہے اس وقت پارٹی لیڈروں کے درمیان اندرونی تنازع ہوگا، جبکہ ریاستی انتخابات اور 2024 کے قومی انتخابات کے موقع پر اتحاد کی ضرورت ہے۔ جب بھی پارٹی کے انتخابات ہوں گے اسی طرح کے حالات پیدا ہوں گے۔ یہ حقائق سے دور ہے اور تقلید سے پارٹی کے اہم ایشوزسے ٹالناہے۔ اس سے پارٹی طویل مدت میں کمزور ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق دگ وجے سنگھ اور اجے ماکن، جو راہل گاندھی کے قریبی مانے جاتے ہیں نے سی ڈبلیو سی کے الیکشن کے لیے زور دیا تھا، جبکہ G-23کے ممبران آنند شرما اور پی چدمبرم جیسے لیڈروں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اب تمام توجہ اس بات پر مرکوز رہے گی کہ سی ڈبلیو سی کی نامزدگی کس کو ملتی ہے۔ تمام امکانات میں، یہ تجربہ کار پرانے ہاتھوں، توانا اور امید افزا نوجوان بریگیڈ کا امتزاج ہوگا۔ ایس سی، ایس ٹی، اقلیتوں اور خواتین کے لیے 50 فیصد ریزرویشن سے بڑا فرق پڑے گا۔ راہل کے خلاف الزام یہ بھی تھا کہ وہ پارٹی کو نوجوان لیڈروں سے بھرنا چاہتے تھے، لیکن اب تجربہ کار اور نوجوان نسل کا امتزاج ہونا یقینی ہے۔
rvr
پارٹی کو متحد اور مضبوط کرنے کی کانگریس کی کوشش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS