ایم اے کنول جعفری
ملک کی پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اورمیزورم میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایگزٹ پول کے تمام نتائج کو غلط ثابت کرتے ہوئے کامیابی کی جو لکیر کھینچ دی ہے، اسے چھوٹی ثابت کرنے کے لیے نہ صرف کانگریس بلکہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو توقعات کے برعکس آئے نتائج پر نئے سرے سے غوروخوض تو کرنا ہی ہوگا، اگلے برس ہونے والے عام انتخابات کے لیے نئی حکمت عملی پر بھی کام کرنا ہوگا۔ ایسا اس لیے بھی لازمی ہے کہ جہاں بی جے پی نے ہندی بیلٹ کے صوبوں میں سے راجستھان اورچھتیس گڑھ میںبڑی جیت درج کرتے ہوئے کانگریس کے ہاتھوں سے اقتدار کی باگ ڈور چھین لی وہیں مدھیہ پردیش میں 2108 کے الیکشن کے بعد حکومت سازی کرنے والی کانگریس کے ہاتھوں 15 مہینے اقتدار سے باہر رہی بی جے پی پانچویں مرتبہ حکومت تشکیل کر رہی ہے۔ پارٹی نے ایم پی میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اقتدار مخالف لہر کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے دو تہائی سے زیادہ سیٹیں جیت لیں۔ دوسری جانب کانگریس نے تلنگانہ فتح کرکے بھارت راشٹر سمیتی کے 10 برس کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ تین بڑی ریاستوں میں کامیابی کے ساتھ بی جے پی کا سارا دھیان اب2024کے عام انتخابات کے مدنظر جنوبی ہندمیں خستہ حالت درست کرنے اور پارٹی کی پوزیشن مضبوط کرنے پر لگانا طے ہے۔ بی جے پی 12 صوبوں اترکھنڈ، ہریانہ اترپردیش، گجرات، گووا، آسام، تریپورہ، منی پور، اروناچل پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اقتدار میں ہے جبکہ کانگریس تین ریاستوں کرناٹک،ہماچل پردیش اور تلنگانہ تک سمٹ گئی ہے۔
بی جے پی نے مدھیہ پردیش کی 230 میں سے 163 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ صوبے میں حکومت سازی کا خواب دیکھ رہی کانگریس کو 66 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ ایک نشست دیگر کو ملی ۔ 2018 میں کانگریس کو 114، بی جے پی کو109 اور دیگر کو7سیٹیں ملی تھیں۔ اس بار بی جے پی کو 54 نشستوں کا فائدہ ہوا تو کانگریس کو 48 اور دیگر کو 6 سیٹوں کا نقصان اُٹھانا پڑا۔ راجستھان کی 200 نشستوں میں بی جے پی کو 115 اور کانگریس کو 69سیٹیں حاصل ہوئیں۔ دیگر جماعتوں کو 16 سیٹیں ملیں۔ 2018 میں کانگریس کو 100، بی جے پی کو 73 اور دیگر جماعتوں کو 27 سیٹیں ملی تھیں۔ بی جے پی کو 42 نشستوں کا فائدہ ہوا تو کانگریس کو 31 اور دیگر کو11سیٹوں کا نقصان پہنچا ۔ گزشتہ الیکشن میں انہیں 27 نشستیں ملی تھیں۔ 90 سیٹوں والے چھتیس گڑھ میں بی جے پی نے 54 سیٹوںپر پرچم لہرایا جبکہ برسراقتدار کانگریس کو 35 نشستوں سے مطمئن ہونا پڑا۔ دیگر کو ایک سیٹ ملی۔ 2018 میں کانگریس کو 68، بی جے پی کو 15 اور دیگر کو 7مقام حاصل ہوئے تھے۔ بی جے پی کو39 سیٹوں کا فائدہ ہوا توکانگریس کو 33 اور دیگر کو 6 نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تلنگانہ کی 119 سیٹوں میںکانگریس نے 64 سیٹوں پر فتح پائی جبکہ برسراقدار جماعت بی آر ایس کو 39 ، بی جے پی کو8، اے آئی ایم آئی ایم کو 7 اور دیگر کوایک نشست حاصل ہوئی۔ 2018 میں ٹی آر ایس ( بی آر ایس) کو 88، کانگریس کو 19، بی جے پی کوایک، اے آئی ایم آئی ایم کو 7 اور دیگر کو4سیٹیں ملی تھیں۔ کانگریس کو 45 اور بی جے پی کو7 سیٹوں کا فائدہ توبی آر ایس کو 49 اور دیگر کو 3 سیٹوں کا نقصان ہوا۔ اے آئی ایم آئی ایم ساتوں سیٹیں بچانے میں کامیاب رہی۔ 40 نشستوں والے صوبے میزورم میں زورم پیپل موومنٹ (زیڈ پی ایم) نے 27 سیٹیوں پرشاندار فتح پائی۔ این ڈی اے کو جھٹکا لگا ۔ اقتدارمیں شامل جماعت میزونیشنل فرنٹ(ایم این ایف)کو10، بی جے پی کو دو اور کانگریس کو ایک نشست ملی۔میزورم میں کانگریس کی حالت لگاتار ابتر ہورہی ہے۔ 2018میں کانگریس کو 5 ،ایم این ایف کو26،زیڈ پی ایم کو 8اور بی جے پی کو ایک سیٹ ملی تھی۔ زیڈ پی ایم کو 19 اور بی جے پی کو ایک سیٹ کا فائدہ ہوا۔ ایم این ایف کو 16 اور کانگریس کو 4 سیٹوں کا نقصان ہوا۔
کانگریس کے بڑے چہرے راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، سونیا گاندھی اور موجودہ صدر ملکارجن کھرگے سمیت کئی اہم رہنماؤں نے پانچوں ریاستوں میں ایک کے بعد ایک کئی ریلیوں سے خطاب کرکے عوام کے سامنے کرناٹک کے فارمولے کو پیش کیا تھا۔ بی جے پی پر عوام کے مفاد کو نظر انداز کرنے، چند لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کام کرنے اور لوگوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کرنے جیسے الزامات لگاتے ہوئے رائے دہندگان کو 5 گارنٹیوں کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن مودی کی گارنٹی سب پر بھاری پڑی۔ نفرت کے بازار میں محبت کی دکان پر کم ہی لوگ پہنچے۔ شروع میں بی جے پی پچھڑ رہی تھی۔ شیوراج سنگھ چوہان پر لگے بدعنوانی کے الزامات، صوبے میں بی جے پی کی خستہ حالی اور عوام کی سی ایم سے ناراضگی بھانپتے ہوئے وزیراعظم نے آگے بڑھ کر کئی سخت فیصلے لیے۔ وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو انتخابی چہرہ بنانا تو بہت دور، امیدواروں کی پہلی، دوسری اور تیسری فہرست میں شامل تک نہیں کیا۔ سی ایم نے پارٹی کے فیصلے کو قبول کیا اور انتخابات میں جی جان سے جٹ گئے۔ دوسری جانب 15 مہینے میں کمل ناتھ حکومت گرانے اور 22 اراکین اسمبلی کے ساتھ بی جے پی کا دامن تھامنے والے جیوترادتیہ سندھیا کو بھی کئی امتحانات سے گزرنا پڑا۔ بھلے ہی کئی بار انہیں ایسا لگا ہو کہ ہاتھ کا ساتھ چھوڑنے کا ان کا فیصلہ صحیح نہیں تھا، اس کے باوجود انہوں نے کمل کی جڑ میں گرم پانی ڈالنے کا کام نہیں کیا بلکہ پارٹی کے لیے کام کرنے کو فوقیت دی۔ وزیراعظم کے سخت فیصلوں نے جیت کی راہ ہموار کی۔ خود کو انتخابی چہرہ بنائے رکھنے کے باوجود سخت مقابلے والی سیٹوںپر مرکزی وزرا اور ممبران پارلیمنٹ کو ا نتخاب کے لیے اتارنے، ’لاڈلی بہنا‘ اور 33 فیصد خواتین ریزرویشن کی منظوری سے آدھی آبادی کے بی جے پی کے حق میں کھڑا ہونے، دگ وجے سنگھ اور کمل ناتھ کے درمیان اختلافات، ریاست میں کانگریس کی متکبر قیادت، زیادہ اعتماد اور ٹکٹوں کی منمانی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو پہنچا۔ حالانکہ ایک ایم پی، ایک مرکزی وزیر اور 12صوبائی وزرا الیکشن ہار گئے لیکن پارٹی جیت گئی۔ راجستھان میں کانگریس کو واپسی کی امید تھی لیکن کئی وزرا اور اراکین اسمبلی کی بدعنوانیاں اسے لے ڈوبیں۔ اندرونی جھگڑوں، سچن پائلٹ کو نظر انداز کیے جانے سے گوجروں کی ناراضگی، خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم، پیپر لیک اور بدعنوانی سے نوجوان و خواتین میں غصہ، کنہیا لال قتل کیس کو زوردار طریقے سے اٹھانے،خواتین کی حفاظت کا وعدہ، پولرائزیشن کی وجہ، ذات پات کے بہتر توازن اور اچھے انتظام کی بنا پر بی جے پی نے بازی مارلی جبکہ کانگریس کے17 وزرا اور کئی اراکین اسمبلی کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
چھتیس گڑھ میں کانگریس کی قرض معافی اور مفت تعلیم کے داؤ فیل ہو گئے۔ بی جے پی کے ذریعے مودی کی گارنٹی، اقتدار مخالف لہر کی گھیرا بندی، حکومت اور تنظیم میںاتحاد کا فقدان، آپسی گٹ بندی، متذبذب ووٹروں کا بکھراؤ، شراب بندی میں ناکامی، بے روزگاری الاؤنس نہیں ملنے، بی جے پی کی بدعنوانی پر حملہ آوری ، ’مہتاری وندن اسکیم‘ کے تحت سالانہ12ہزار روپے کی گارنٹی اور درگا وتی اسکیم کے وعدے کا خواتین پر خاطر خواہ اثر اور صوبے میں چہرے کا اعلان نہ کر بوتھ کا نظم مضبوط رکھنے کا زبردست فائدہ پہنچا۔ تلنگانہ میں کانگریس نے بہترین مظاہرہ کیا۔ کانگریس کو مہالکشمی اسکیم کے تحت خواتین کو 30 ہزار روپے سالانہ، کلیان لکشمی ؍شادی مبارک اسکیم میں 10 گرام سونا اور ایک لاکھ روپے کی کی مدد، 500 روپے میں گیس سلنڈر، مسلمانوں کی زبردست حمایت، مقامی مساوات کے حل، مستحق افراد کو اسکیموں کا فیض نہیں ملنے کا ایشو اور بدعنوانی کے الزامات کو زوردار طریقے سے اٹھانے کا فائدہ ملا۔میزورم میںزیڈ پی ایم نے برسراقتدار جماعت ایم این ایف کو اکھاڑ پھینکا۔ وزیر اعلیٰ زورم تھنگا کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ گزشتہ کئی برسوں سے ریاست کی ترقی کے لیے کام کرنے اور ایم این ایف سے آزادی کی بات کرنے والے زیڈ پی ایم کے قائد لالدوہوما کو نوجونوں میں زبردست مقبول ہونے کا فائدہ پہنچا۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کی شاندار جیت کو اعتماد، بہتر نظام، ترقی پر مبنی اور ہندوستان کے ترقی یافتہ ہدف کے ساتھ آگے بڑھنے کی جیت قرار دیا ہے۔ کچھ بھی ہو، اتنا صاف ہے کہ مودی میجک کے باوجود فی الحال بی جے پی کے سامنے اپنی انتخابی ایکسپریس کو ہندوتو کی پٹری پر آگے بڑھانے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں کانگریس، بی جے پی کا، راہل گاندھی، نریندر مودی کا اور کانگریسی انتخابی مہم، بی جے پی انتخابی مہم کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کانگریس یا ’انڈیا‘ کو اسی صورت میں مضبوطی حاصل ہو سکتی ہے جب بڑی جماعتیں چھوٹی اور علاقائی جماعتوں کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے کے ساتھ ضرورت پڑنے پر قربانی دینے کا جذبہ بھی رکھتی ہوں۔ ’ہنوز دلی دور است‘ کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایسا کیا جانا ضروری بھی ہے اور وقت کی مانگ بھی۔n
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)