ہندوستان کی غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں نامزد گورنروں کا کردار ایک بار پھر سے تنازع کا سبب بن گیا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے دیگر ریاستوں میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مل کر گورنروں کے متنازع کردار کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوںنے عملی کارروائی بھی شروع کردی ہے اور پہلے مرحلے میں تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن سے ان کی بات چیت ہوئی ہے اور دونوں وزرائے اعلیٰ کا اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ غیر بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے گورنروں کی مبینہ غیر جمہوری سرگرمیوں کے خلاف مل کر تحریک چلائی جائے گی۔ ممتابنرجی اور ایم کے اسٹالن کا کہنا ہے کہ غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں گورنر غیر جمہوری طریقے سے کام کر رہے ہیںجس کی وجہ سے حکومت کو انتظامی کام کاج میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور حکومت اپنی پالیسی کے مطابق کام نہیں کرپارہی ہے ۔ گورنروں کے خلاف ممتا اور اسٹالن کی محاذ آرائی میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین بھی ان کے ہم رکاب ہیں اور یہ امکان بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ بہت جلد دوسری ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی اس قافلہ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاستوں میں مرکز کے نامزد گورنر اپنے اختیارات بالخصوص صوابدیدی اختیار ات کا استعمال ریاست کی منتخب حکومتوں کو پریشان کرنے کیلئے کرتے ہیں ۔ مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اس کے شاکی بھی رہ چکے ہیں ابھی حال کے دنوں میں ہی کیرالہ کے گورنر نے ریاستی کابینہ کے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کامطالبہ مسترد کرکے اپنی مطلق العنانی کا ثبوت دیا تھا۔ایسے تنازعات کم و بیش مغربی بنگال اور دوسری غیر بی جے پی ریاستوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بعض اوقات تومرکز ریاستوں میں ناپسندیدہ حکومت کے خلاف اس حد تک چلی جاتی ہے کہ وہ اپنے نامزد گورنر کے ذریعہ آئین کے آرٹیکل356کو نافذ کرکے آئینی بحران پیدا کی جاتی ہے یا پھر منتخب ریاستی حکومت کو ہی ہٹادیا جاتا ہے ۔آزادی کے75برسوں میں کم از کم132ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن میں گورنروں نے مرکز کے اشارے پر ریاست کی منتخب حکومت کو برخاست کیا ہے ۔ لیکن جب سے ایسے معاملات میں عدالت عظمیٰ سرگرم ہوئی ہے اور منتخب حکومتوں کو ہٹاکر صدر راج نافذ کرنا مشکل ہوا ہے‘ مرکزنے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی ہے ۔اپوزیشن ریاستوں کی حکومت کو اب دوسرے طریقوں سے ہراساں کیاجارہاہے۔ ایک طرف ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش ہوتی ہے تو دوسری جانب سے اسمبلی میں پاس ہونے والے بلوں کو گورنر کے ذریعہ رکوایاجاتا ہے ۔
حال کے دنوں میں مغربی بنگال قانون ساز اسمبلی میں منظور کئے گئے کئی بل گورنر نے روک رکھے ہیں ۔ان منظورشدہ بلوں میں مغربی بنگال پریوینشن آف لنچنگ بل‘ ہوڑہ کارپوریشن ترمیمی بل اورریاستی یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پروزیراعلیٰ کی تقرری کیلئے بنگال اسمبلی سے منظور کیا گیا بل بھی راج بھون میں پھنسا ہوا ہے۔تلنگانہ اسمبلی میںبھی پاس کم از کم 10بل کو گورنر کی سطح پرروک دیاگیا جس کے خلاف تلنگانہ کے وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر رائو سپریم کورٹ بھی گئے ۔ پنجاب ‘ تمل ناڈو‘چھتیس گڑھ اورکیرالہ کو بھی ایسے کئی تجربات سے گزررہے ہیں ۔
ایسے واقعات گورنروں کو مرکز کے ایجنٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے ان کی منفی تصویربناتے ہیں اوراس سے ایک منتخب حکومت کو کمزور کرنے کیلئے گورنر کے عہدے کا غلط استعمال ہوتا ہے ۔حالانکہ آئین کی رو سے ریاست اپنے دائرہ اختیار میں مکمل خودمختار ہے جب کہ گورنر کا دفترریاست کی آئینی مشینری میں ایک اہم جزہونے کے باوجود اسی آئین کے تحت برائے نام سربراہ ٹھہرایاگیا ہے ۔ لیکن اس آئینی بندش کے باوجود مرکز اپنے ان نامزد گورنر کے ذریعہ ریاستوں کو پریشان اور ہراساں کرنے کی نت نئی ترکیبیں نکالتا رہتا ہے ۔ مرکزمیں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد سے تو ریاست کے گورنر عملاً مرکز کے ایجنٹ کا کام کررہے ہیں کئی ریاستوں میں توگورنر اپوزیشن کا اہم چہرہ اور راج بھون بھگوا کیمپ بن چکا ہے ۔
ریاست کی راجدھانی میں بیٹھا گورنر آئین کی رو سے مرکزی حکومت کا ایجنٹ نہیں ‘بلکہ وہ ریاستی سطح پر ہندوستان کے وفاقی اور جمہوری نظام میں ایک پل محض کی حیثیت رکھتا ہے اوراس کا کام ریاستی انتظامیہ کو بطور سرپرست مشورہ دینا اور ریاستی حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہے ۔ ہندستان میں آئینی جمہوریت کی کامیابی اور وفاق کے استحکام کا تقاضا ہے کہ گورنرکو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے غیر جانبداری برقرار رکھنی چاہئے اور ریاست کے کام کاج میںبے جا مداخلت سے گریز کرنا چاہئے ۔ اگر ایسا نہیں ہوگاتو پھرگورنر کا آئینی عہدہ بھی سیاسی عفونت سے محفوظ نہیں رہے گا۔ اورگورنروں کے کشتہ ستم وزرائے اعلیٰ کے اسٹالن کو محاذ آرائی سے بھی نہیں روکا جاسکتا ہے ۔
[email protected]
گورنروں کے خلاف محاذ آرائی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS