جنگ کسی کے حق میں نہیں ہوتی۔ اسی لیے جنگ کی نوبت ہی نہیں آنے دینی چاہیے۔ دو ملکوں کے مابین تنازع اگر ہو تو اسے ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ حماس کے حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اگر ایسی کوشش کی ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ ان کی طرف سے کوشش یہ ہوئی کہ اسرائیل جواب دے، اپنی دھاک قائم کرے مگر غزہ کی جنگ امید سے زیادہ طویل کھنچ گئی۔ غزہ جنگ میں عام لوگوں کی ہلاکتوں، خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ اسرائیل حماس کا خاتمہ کرے مگر عام شہریوں کو بچاکر۔ ٹرمپ جیسے لیڈر کو یہ کہنا پڑا کہ غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی ساکھ گر رہی ہے۔ کیا انہی حالات کی وجہ سے اور ذہن بانٹنے کے لیے اسرائیل نے دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کیا تھا؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ ایرانی سفارت خانے پر حملے کے سلسلے میں اسرائیل کی طرف سے کوئی واضح بیان نہیں آیا ہے، البتہ ایران نے ڈرونوں اور میزائلوں سے اس پر حملہ کرکے یہ بتا دیا ہے کہ اسے کمزور سمجھنے کی غلطی کوئی نہ کرے۔ اس حملے کے بعد اندیشہ اس بات کا ہے کہ اسرائیل، ایران پر جوابی حملہ کرے گا۔ اگر اس نے ایسا کیا تو ان دو ملکوں کا تنازع ایک بڑی جنگ کی شکل اختیار کر لے گا، خطے کے کئی ممالک کے اس جنگ میں ملوث ہوجانے کا اندیشہ رہے گا۔ اسرائیل سے ایران کافی دور ہے، وہ اگر فضائی حملہ کرے گا تو خطے کے ملکوں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے ہی حملہ کرے گا یا ان کی اجازت سے ان کی فضائی حدود کا استعمال کرے گا۔ دونوںہی صورتوںمیں جنگ کے وسعت اختیار کرلینے کا اندیشہ رہے گا، چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسرائیل-ایران تنازع کو بڑھنے سے روکا جائے، دنیا کی بڑی طاقتیں اس میں مثبت رول ادا کریں۔
حماس کے حملوں کے بعد امریکہ کا جو موقف تھا، ایران کے حملوں کے بعد اس کا ویسا موقف نہیں ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہو کہ پہل اسرائیل نے کی۔ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکہ، ایران کی طاقت سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان اگرجنگ ہوتی ہے تو اس جنگ میں لامحالہ اسے اور اس کے اتحادیوں کو بھی شامل ہونا پڑے گا ، یہ مشرق وسطیٰ میں اس کے مفاد کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔ غالباً اسی لیے امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ایران کے خلاف جوابی کارروائی سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ دراصل امریکہ جانتا ہے کہ اسرائیل کی ایران کے خلاف جنگ صرف ایران تک محدود نہیں رہے گی، روس اور چین کی بھی ایران کو حمایت حاصل رہے گی۔ روس اور چین یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایران کمزور پڑے اور اس خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طاقت میں اضافہ ہو۔ ایران کا ساتھ دینا ان کی مجبوری ہوگی۔ ادھر یمن، عراق، لبنان اور شام سے بھی اسرائیل پر حملوں میں شدت آجائے گی اور اس کا فائدہ حماس کو ہوگا یعنی ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہونے کا مطلب دو ملکوں کی نہیں، کئی ملکوں کی جنگ ہوگی۔
فی الوقت امریکہ کا موقف حوصلہ افزا ہے اور یہ امید بندھاتا ہے کہ ایران-اسرائیل تنازع جنگ تک نہیں پہنچے گا مگر اسرائیل کے رخ کو دیکھتے ہوئے اندیشہ اس بات کا ہے کہ دونوں ملکوں کا تنازع کبھی بھی وسعت اختیار کر سکتا ہے۔ پھر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو وہی کرنا پڑے گا جو اسرائیل چاہے گا، کیونکہ آج تک انہوں نے وہی کیا ہے جو اسرائیل نے چاہا ہے مگر غزہ کی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے زیادہ دلچسپی لینے کی وجہ سے یوکرین کی حالت خستہ ہو چکی ہے اور روس کی جیت کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، اگر ایران پر اسرائیل نے حملہ کر دیا، اس حملے نے جنگ کی شکل اختیار کرلی اور امریکہ اور اس کے اتحادی جنگ میں الجھ گئے تو پھر یوروپ کا کیا ہوگا؟ کیا یہ صورتحال ولادیمیر پوتن کے لیے روس کو سوویت یونین بنانے کا خواب پورا کرنے والی ہوگی اور اس کے لیے وہ یوکرین کے بعد اگلا نشانہ پولینڈ کو بنائیں گے؟ فی الوقت اس پر دعوے سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اندیشوں کو نظرانداز کرنا بھی مشکل ہے۔ عالمی برادری کی نظر اس بات پر ہے کہ موجودہ صورتحال میں امریکہ کیا رول ادا کرتا ہے۔ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے کیا وہ کچھ سخت فیصلے لینے کی جرأت دکھائے گا؟ ویسے امریکہ نے کوئی جرأت مندانہ فیصلہ نہ لیا، اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ ہوگئی تو یہ جنگ امریکہ کے منصوبوں پر بھاری پڑے گی!
[email protected]
تنازع کو جنگ میں نہیں بدلنا چاہیے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS