عبدالجبار مرحوم کی خدمات کا اعتراف

بدنام زمانہ بھوپال گیس سانحہ کے متاثرین کے لیے آخری دم تک لڑنے والے ہیرو کو ’پدم شری‘

0

عبدالماجد نظامی

سال1984صرف آنجہانی اندرا گاندھی کی شہادت اور اس کے بعد سِکھ اقلیت کے خلاف بربریت کے لیے ہی مشہور نہیں ہے بلکہ اسی برس ایک اور سنگین و تباہ کن حادثہ پیش آیا جو جدید عہد کے المناک ترین حادثوں میں شمار ہوتا ہے۔ 2؍اور 3؍دسمبر 1984کی درمیانی شب میں یونین کاربائڈ انڈیا لمیٹڈ کے بھوپال واقع پیسٹیسائڈ پلانٹ سے Methyl Isocyanate نامی جو زہریلی گیس لیک ہوئی اس نے پندرہ ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، تقریباً پانچ لاکھ لوگ زخمی ہوئے، کئی ملین افراد بیمار ہوئے اور بعد کی نسلیں بھی اس زہریلی گیس کے مہلک اثرات سے نہیں بچ پائیں۔ابھی تک وہاں معذور بچے پیدا ہو رہے ہیں۔اسی لیے وہاں کے متاثرین کو انصاف دلانے کی غرض سے عالمی سطح پر آوازیں ہمیشہ اٹھتی رہی ہیں لیکن یہ آوازیں یا تو از خود دم توڑدیتی ہیں یا ان آوازوں کو دبا دیا جاتا رہا ہے۔ انہیں آوازوں میں ایک آواز ایسی بھی تھی جو نہ دبی اور نہ کمزور پڑی بلکہ35سالوں تک مسلسل سڑک سے سنسد تک سنائی دیتی رہی۔2002 کی سرشٹی اور ٹاکسکس لنک کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پلانٹ کے قریب بسنے والی آبادی میں دودھ پلانے والی ماؤں کے دودھ میں سیسہ و سیماب جیسے خطرناک مادوں کے اثرات پائے گئے ہیں۔ اس کے برعکس یونین کاربائڈ کا چیئرمین امریکی نژاد وارین اینڈرسن صرف ایک دن کے لیے گرفتار ہوا اور محض دوہزار ڈالر کی ضمانت ادا کرکے قید سے آزاد ہوگیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈرامائی ڈھنگ سے راتوں رات امریکہ پہنچا دیا گیا جہاں سے پھر کبھی لوٹ کر ہندوستان نہیں آیا اور نہ ہی اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکا۔ یونین کاربائڈ نے 1999 میں ڈاؤ کیمیکلس کا حصہ بن کر تجارت کا سفر جاری رکھا لیکن متاثرین انصاف پانے کے لیے در در بھٹکتے رہے۔عدالت سے باہر جو تصفیہ ہوا اس میں470ملین ڈالر کی معمولی رقم متاثرین کو دینے کا اعلان ہوا جسے بعد میں متاثرین کے درمیان تقسیم کیا گیا۔2010 میں گرچہ بھوپال گیس ٹریجڈی کے سبھی 10 ملزمین گنہگار پائے گئے لیکن یونین کاربائڈ اور اس کے چیف وارین اینڈرسن کا سفر نہیں رُکا۔ متاثرین آج تک فریاد کر رہے ہیں کہ انہیں انصاف نہیں ملا۔
درد اور مایوسی کے ایسے ہی پرآشوب ماحول میں امید اور مضبوط قوت ارادی کی مثال بن کر ایک شخص اُبھرا جس نے آخری سانس تک زندگی اور بقا کی جنگ پوری قوت اور پامردی کے ساتھ جاری رکھی۔ اس شخص کا نام عبدالجبار ہے جنہیں مقامی لوگ ’جبار بھائی‘ کے نام سے جانتے تھے۔ انہوں نے ہمت و حوصلہ اور پامردی و بلند آہنگی کی وہ مثال قائم کی جو آئندہ نسلوں کے لیے ہمیشہ مینارۂ نور ثابت ہوگی۔ عبدالجبار اور خود ان کے اہل خانہ نے بھوپال گیس ٹریجڈی میں اپنا بہت کچھ کھویا تھا۔ والدین اور بھائی زہریلی گیس کے مابعد اثرات کا شکار ہوئے۔ عبدالجبار کی بینائی اور پھیپھڑے بری طرح متاثر ہوئے۔ لیکن حادثہ کے وقت 28 برس کے اس نوجوان نے ان مشکلات کے بوجھ سے ٹوٹنے کے بجائے متاثرین کو نئی زندگی عطا کرنے کا بیڑا اٹھایا اور پھر بھوپال گیس ٹریجڈی متاثرین کی فلاح و بہبودی اور انصاف کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کا حصہ بن گیا جس کا سلسلہ14؍نومبر2019تک جاری رہا جب وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
کہا جاتا ہے کہ لاشوں کے ڈھیر اور سانس کے لیے تڑپتے بوڑھے، بچے اور عورتوں کی حالت زار انہوں نے دیکھی تھی جس سے متاثر ہو کر ان کی فلاح و بہبودی کو اپنا مشن بنالیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کی خاطر ’بھوپال گیس پیڑت مہیلا ادیوگ سنگٹھن‘ نامی تنظیم قائم کی اور تین دہائیوں تک اپنی انتھک محنت سے بے شمار لوگوں کی طبی اور اقتصادی بازآبادکاری کا کام کرتے رہے۔ انہوں نے جو خدمات انجام دی ہیں ان میں عوامی خدمت کی راہ پر گامزن وکیلوں کی مدد سے عدالتوں میں گیس ٹریجڈی متاثرین کے لیے مقدمے لڑنا، متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریلیف کا انتظام، متاثرین کو معاوضہ دلوانے کے لیے تگ و دو اور قانونی لڑائی کرنا، زہریلے ملبہ کی صفائی کے لیے دیے گئے معاوضہ میں اضافہ کا مطالبہ، سڑکوں پر احتجاج کرکے عوامی شعور کو بیدار کرنا، عوامی تحریکوں میں شمولیت، فسادزردگان کی راحت و امداد میں حصہ لینا، انہدامی کارروائیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا، ماحولیاتی تحفظ کے لیے شجرکاری کو بڑھاوا دینا اور جھیلوں کے ارد گرد مکانات اور ہوٹلوں کی تعمیر کے خلاف آواز بلند کرنا جیسے اہم کارنامے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے متاثرین اور دیگر کمزور طبقوں کو خود کفیل بنانے اور انہیں روزگار سے منسلک کرنے کی غرض سے سلائی، بیگ سازی اور زردوزی جیسے پیشوں سے جوڑا اور مارکیٹ کے ساتھ ان کا رابطہ سازگار بنایا تاکہ وہ اپنے پروڈکٹس بیچ کر باوقار زندگی گزار سکیں۔ ان تمام ممتاز کارناموں کے علاوہ ان کی زندگی کا جو پہلو سب سے زیادہ متاثر کن ہے، وہ ہے ان کی خود داری اور عزت نفس کی حفاظت۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں کسی سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی متاثرین کے دُکھ درد کو کارپوریٹ ہاؤسز اور بیرونی ممالک کی ایجنسیوں کے ہاتھوں نیلام کیا۔ سرکار، سیاست داں اور کمپنیاں سب نے مدد کی پیشکش کی لیکن انہوں نے قبول نہیں کی۔ خواتین کو اپنی لڑائی میں بنیادی طور پر شامل کرکے انہیں اپنے حقوق کی بازیابی کا ہنر سکھایا اور انہیں عزت کی زندگی دلانے میں کامیاب ہوئے۔ جہاں تک ان کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی پوری زندگی اہلیہ سائرہ بانو اور تین بچوں کے ہمراہ مفلسی میں گزار دی۔ محض ایک کمرہ کا گھر تھا جس کو چھت کے نام پر اسبیسٹاس یعنی سیمنٹ کی چادر ملی تھی اور اپنے چھوٹے بھائی کی فیملی کے ساتھ مشترکہ بیت الخلاء استعمال کرتے ہیں۔
ان کی اسی بے نفسی اور خدمت خلق کے امتیازی جذبہ کے احترام میں صدر جمہوریۂ ہند نے بروز پیر 8؍نومبر2021 کو راشٹرپتی بھون کے دربار ہال میں بعد از مرگ پدم شری کے اعزاز سے نوازا تھا۔ یہ اعزاز دراصل اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ گیس ٹریجڈی کے متاثرین کو انصاف دلانے کی خاطر لڑنا ایک ایسا مقصد تھا جس کی معنویت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ان کی اہلیہ سائرہ بانو کی بات درست ہے کہ لوگ ان کی خدمات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ جباربھائی کوملنے والے اس ایوارڈسے انسانی حقوق کے علمبرداروں کو حوصلہ تو ضرور بڑھے گا لیکن متاثرین کے زخموں پر کتنا مرحم لگے گا، یہ کہنا مشکل ہے۔ اسی لیے سرکار کی ذمہ داری ابھی بھی وہی ہے کہ متاثرین کو مکمل انصاف دلائے اور ان کی بازآبادکاری میں سنجیدگی سے کام لے۔ یہی ’جبار بھائی‘ کے لیے سب سے عمدہ خراج عقیدت کہلائے گا۔
(مضمون نگار راشٹریہ سہارا اردو کے ڈپٹی گروپ ایڈیٹر ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS