کوئی علاقہ چھوٹا ہو یا بڑا، اگر وہاں بدامنی کے پھیلنے کا اندیشہ ہو تو احتیاطی اقدامات کرنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے، خاص کر اس وقت احتیاطی اقدامات کرنے چاہئیں جب پڑوس کا علاقہ تشدد کی آگ سے جھلس رہا ہو، اس لیے یہ امید کی گئی تھی کہ بنگلہ دیش میں پھیلتے فرقہ وارانہ فسادات کو دیکھتے ہوئے ہماری متصل ریاستوں میں احتیاطی اقدامات پہلے ہی کر لیے جائیں گے تاکہ حالات بگڑنے کا اندیشہ بھی ہو تو حالات نہ بگڑیں۔ یہ سوال جواب طلب ہے کہ وقتاً فوقتاً جب یہ سوال اچھالا جاتا ہے، ’ملک پہلے یا مذہب؟‘ تو پھر پڑوسی ملک میں ہونے والا کوئی واقعہ ہمارے ملک کے لوگوں کو متاثر کرنے کی وجہ کیسے بن سکتا ہے؟ بنگلہ دیش میں جس طرح فساد پھوٹا اور پھیلا، اس پر وہاں کے میڈیا نے سخت الفاظ میں اپنی حکومت کی مذمت کی اور امن پسند بنگلہ دیشی مسلمانوں نے سڑکوں پر اتر کر ہندو اقلیت کی حمایت کی۔ ہم لوگوں کو بھی فساد کروانے والوں کی مذمت کرنی چاہیے اور یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ بنگلہ دیش کی حکومت اصل فسادیوں کی شناخت کرے اور انہیں سزا دلائے مگر اسی کے ساتھ ہمیں خود اپنی ایک ریاست تری پورہ میں حالات کے بگڑنے پر بھی تشویش کا اظہار کرنا چاہیے بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مذہبی مقامات اور گھروں پر حملے کرنے کے لیے اکسانے والے لوگ کون تھے؟ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے آگ زنی کی؟ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعروں کی وجوہات کیا تھیں؟ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے بجا طور پر فسادیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور تری پورہ کے وزیراعلیٰ شری بپلاب کمار دیب کو خط میں یہ لکھا ہے کہ ’ایک وزیراعلیٰ ہونے کی حیثیت سے یہ آئینی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور تشدد پسند عناصر پر قد غن لگائیں جو بنگلہ دیش میں رونما ہونے والے تشدد کا بہانہ بنا کر ہندوستان کے مسلمانوںپر حملہ کر رہے ہیں۔‘
اگر یہ سچ ہے کہ تری پورہ میں ہونے والی حالیہ شرانگیزی کی وجہ بنگلہ دیش میں ہونے والے فسادات ہی ہیں تو یہ واقعی حیرت کی بات ہے، کیونکہ فساد کی وجہ سے اگر فساد ہوتا تو بنگلہ دیش کے مسلمان قیام امن کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلتے؟وہ اقلیتی ہندو برادری کو یہ احساس دلانے کی کوشش نہیں کرتے کہ بنگلہ دیش پر ان کا حق اتنا ہی ہے جتنا حق دیگر مذاہب کے لوگوں کا ہے؟ تری پورہ کے حالات پر جمعیۃ علماء تری پورہ کے صدر مفتی عبدالمومن کے مکتوب کے حوالے سے آنے والی خبر کے مطابق، تری پورہ میں 12 مساجد پر حملے ہوئے ہیں، آگ زنی اور چند مساجد پر بھگوا جھنڈے لہرائے گئے ہیں۔ تری پورہ کے دارالحکومت اگر تلہ کی مسجد بھی اگر محفوظ نہیں رہتی ہے تو پھر اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ وزیراعظم نریندر مودی نے پچھلے انتخاب میں ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے ساتھ ’سب کا وشواس‘ نعرہ بھی دیا تھا۔ کیا اس طرح وزیراعلیٰ شری بپلاب کمار دیب ’سب کا وشواس‘ جیت پائیں گے؟ تری پورہ میں گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ 41.5 فیصد نئے ووٹوںکے ساتھ مجموعی طور پر 43.59 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ 60 نشستوں والی اسمبلی میں بی جے پی نے جو 36 سیٹیں جیتیں، یہ 36 سیٹیں اسے پہلی بار ملی تھیں۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق،تری پورہ کی 3,671,032 آبادی میں 83.40 فیصد ہندو، 8.60 فیصد مسلمان، 4.35 فیصد عیسائی، 3.41 فیصد بدھسٹ اور باقی دیگر مذاہب یا اعتقاد کے لوگ تھے مگر تری پورہ کو لسانی اور ثقافتی طور پر دیکھا جائے تو 65.73 بنگالی، 27.89 تری پوری، 2.17چکما، 2.11 ہندی اور باقی دیگر لوگ تھے، اس لیے بنگلہ دیش میں حالات کے بگڑنے پر اگر تری پورہ میں حالات کے بگڑنے کا اندیشہ پیدا ہوا تھا، کیونکہ وہاں کے حالات پر یہاں احتجاج ہو رہا تھا تو اطمینان کی بات یہ تھی کہ 65.73 فیصد لوگ بنگلہ زبان و ثقافت سے وابستہ ہیں۔ وہ اتحاد کا مظاہرہ کریں گے اور یہ بتائیں گے کہ مختلف لوگوں یا مختلف فرقوں کے اتحاد کی مختلف وجوہات میں زبان و ثقافت بھی شامل ہیں مگر تری پورہ کی صورت حال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شرپسند عناصر شرانگیزی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی ریاستوں میں تری پورہ تیسری سب سے چھوٹی ریاست ہے اور اس میں ہندوستان کی مجموعی آبادی کا 0.3 فیصد لوگ ہی رہتے ہیں مگر حالات اگر یہاں بھی زیادہ خراب ہوتے ہیں تو بدنامی وطن عزیز ہندوستان کی ہوگی، یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے۔ ہمارا ملک مہاتما گاندھی کی ’اہنسا‘ کے اصولوں سے جانا جاتا ہے تو کوشش یہ رہنی چاہیے کہ شرپسند ملک کی شبیہ مسخ نہ کرنے پائیں!
[email protected]
تری پورہ کے حالات تشویشناک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS