امریکہ کی ٹیرف وار سے وابستہ خدشات

0

ڈونالڈ ٹرمپ نے مثبت وعدوں کے ساتھ صدارتی انتخابات کی مہم چلائی تھی۔ ان سے امریکیوں کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن صدر امریکہ کا حلف لیے انہیں 6 مہینے بھی نہیں ہوئے ہیں کہ ان کے خلاف امریکہ میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ بڑی تعداد میں اور متعدد مقامات پر لوگوں نے مظاہرہ کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ اپنے صدر کے ہر فیصلے کو چپ چاپ قبول کرلینے کے لیے تیار نہیں ہیں، انہیں فیصلے لیتے وقت ان کے حالات کا خیال رکھنا ہوگا۔ اب یہ اہل غزہ کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والے لوگ تو ہیں نہیں کہ ڈونالڈ ٹرمپ انہیں دھمکائیں گے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ٹرمپ نے اگر انہیں مظاہرہ کرنے سے روکا یا ان کے مظاہروں کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی تو اس سے مظاہروں میں اور شدت آنے کا امکان رہے گا۔

فی الوقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حالت ایسی ہے کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں کو سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ مستقبل کی باتیں کر رہے ہیں لیکن امریکہ کے ذی ہوش لوگ آج جدوجہد کرکے سنہرے خواب دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کس طرف جا رہی ہے اور ٹرمپ نے حالات کے مدنظر اگر ٹیرف پر نظرثانی نہ کی تو اس کے اثرات سے خود امریکہ کا بھی بچ پانا مشکل ہوگا، کیونکہ شی جن پنگ کے چین اور چند دیگر ملکوں کو یہ اندازہ پہلے سے تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ صدر بن جانے کے بعد ٹیرف کو ایک حربے کے طور پر استعمال کریں گے، البتہ امریکہ کے دوست ممالک کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ٹرمپ ٹیرف کے سلسلے میں جیسا سلوک اپنے حریف ممالک کے ساتھ کریں گے ویسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی کریں گے، اس لیے ان کا تھوڑا پریشان ہونا فطری ہے لیکن اپنی پریشانی کا وہ کوئی نہ کوئی حل تلاش کرہی لیں گے، پھر ٹرمپ کیا کریں گے؟

ایشیا اور یوروپ کے شیئر بازاروں میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ بازار کی بھاری گراوٹ نے اس سے وابستہ لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ بازار کی گراوٹ کا سلسلہ کب تک چلے گا اور کہاں جاکر رکے گا۔ چین ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھا لینا چاہتا ہے۔ ولادیمیر پوتن کے روس نے بھی حالات کی تبدیلی کو سمجھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین سے جنگ کو ختم کرنے میں دلچسپی دکھانے کے باوجود اس نے جنگ روکی نہیں ہے۔ اس کی مسلسل بمباری نے امریکہ کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ ٹرمپ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ یوکرین جنگ رکے کیسے۔ ان کی دھمکی کا روس پر کچھ اثر نہیں ہوا ہے، انہیں یہ کہنا پڑا ہے کہ یوکرین پر روس کی مسلسل بمباری باعث پریشانی ہے مگر ٹرمپ یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ یہ پریشانی خود ان کی اپنی مول لی ہوئی ہے۔

اسرائیل نے جنگ دوبارہ شروع کی تو امریکہ نے اسے روکا نہیں جبکہ یہ بات ٹرمپ کے لیے ناقابل فہم نہیں ہوسکتی تھی کہ غزہ جنگ اگر چلتی رہے گی تو یوکرین جنگ کو روکنا آسان نہیں ہوگا۔ پوتن یہ سمجھ کر کہ امریکہ ، اسرائیل کی مدد کرنے کی وجہ سے غزہ جنگ میں پھنسا ہوا ہے، یوکرین جنگ میں اور شدت لانا چاہیں گے تاکہ روس، یوکرین کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ جما سکے۔ اس سے ٹرمپ کی اور سبکی ہوگی۔ ٹیرف کی وجہ سے اندرون امریکہ اور بیرون امریکہ ان کے خلاف یوں ہی ماحول بنا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں اپنے ملک کے لوگوں اور عالمی برادری کا ذہن بانٹنے کے لیے اندیشہ اس بات کا ہے کہ ٹرمپ غزہ جنگ کے سلسلے میں کوئی بڑا فیصلہ نہ لے لیں یا ایران پر حملہ کرنے کی اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی دیرینہ خواہش نہ پوری کر دیں۔

اگر ایسا ہوا تو مشرق وسطیٰ تباہ ہوجائے گا، اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔ تیل کی قیمتوں میں تو آگ لگ جائے گی۔ ان حالات کا فائدہ اٹھاکر چین، تائیوان پر قبضہ جمانے کے لیے اگر اس پر حملے کر دے تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے، اس لیے ٹیرف وار کوئی معمولی وار نہیں۔ ٹرمپ نے اگر حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھا تو پھر حالات ان کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ طاقت رکھنے کے باوجود وہ امریکہ کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر پائیں گے، کیونکہ وہ طاقت کا استعمال آخر کہاں کہاں کریں گے؟ افسوس اس بات پر ہے کہ وہ نہ دنیا کے بدلتے حالات کو سمجھنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی سمجھانے والا ہے۔ ان کے ساتھی بس ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جو اور تباہ کن ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS