رزق حلال کی فکرمندی

0

جــاویـد اخـتـر بھـارتـی
لوگوں کامال ناجائز طور پر کھانے والے،یتیموں کا حق مارنے والے،زمین و جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے والے، لوگوں کو دھوکہ دے کر مال کمانے اور اسی مال سے اپنے بچوں کاپیٹ بھرنے والے، دن میں دوستی اور رات میں دوستی کی آڑ میں عزت پر ڈاکہ ڈالنے والے، خیانت کی راہ پر لگنے کا مشورہ دینے والے، ناپ تول میں کمی کرنے والے، حساب کتاب میں خرد برد کرنے والے، مزدوروں کا خون چوسنے والے، اپنے بڑوں کا مزاق اڑانے والے، رشتہ داریوں میں دراڑ پیدا کرنے والے، بغض و حسد سے کام لینے والے، چغلی غیبت کرنے والے، تجارت میں دھوکہ دینے والے، تندرست و توانا ہوتے ہوئے بھیک مانگنے والے ان صحابی رسول کا واقعہ پڑھیں، ان کے حالات پر غور کریں، ان کی غربت کو اور ان کے تقوے کو دیکھیں کہ ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کتنا خوف تھا ۔اہل و عیال کی عظیم الشان تربیت کا کتنا عظیم الشان جذبہ تھا، لقمہ حرام سے روکنے اور حلال کمائی کا لقمہ کھلانے کی کتنی فکر تھی اور اس کا کتنا عظیم الشان صلہ ملا کہ دنیا بھی کامیاب اور آخرت بھی کامیاب۔
حضرت ابودجانہ ؓ کی ہر روزکوشش ہوتی کہ وہ نماز فجر رسول اللہ کی امامت میں ادا کریں،لیکن نماز کے فوراً بعد یعنی نماز ختم ہوتے ہی مسجد سے نکل جاتے، رسول اللہ کی نظریں ابودجانہ پر پڑتیں ، جب ابودجانہؓکا یہی معمول رہا تو ایک دن رسول اللہ نے ابودجانہ کو روک کر پوچھا :اے ابودجانہ! کیا تمہیں اللہ سے کوئی حاجت نہیں ہے؟ابودجانہ بولے کیوں نہیں۔رسول اللہ فرمانے لگے، تب پھرتم ہمارے ساتھ نماز ختم ہونے کے بعد کچھ دیر کیوں نہیں ٹھہرتے اور اللہ سے اپنی حاجات کے لئے دعاکیوں نہیں کرتے۔ابودجانہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول! در اصل اس کا سبب یہ ہے کہ میرے پڑوس میں ایک یہودی رہتا ہے، جس کے کھجور کے درخت کی شاخیں میرے گھر کے آنگن میں لٹکتی ہیں، اور جب رات کو ہوا چلتی ہے تو اس کی کھجوریں ہمارے گھر میں گرتی ہیں، میں مسجد سے اس لئے جلدی نکلتا ہوں تاکہ ان گری ہوئی کھجوروں کو اپنے خالی پیٹ بچوں کے جاگنے سے پہلے پہلے چْن کر اس یہودی کو دیدوں، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بچے بھوک کی شدت کی وجہ سے ان کھجوروں کو کھا نہ لیں۔پھر ابودجانہ قسم اٹھاکر کہنے لگے اے اللہ کے رسول! ایک دن میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا جو اس گری ہوئی کجھور کو چبا رہا تھا، اس سے پہلے کہ وہ اسے نگل پاتا میں نے اپنی انگلی اس کے حلق میں ڈال کرکھجور باہر نکال دی۔یا رسول اللہ! جب میرا بیٹا رونے لگا تو میں نے کہا اے میرے بچے مجھے حیاء آتی ہے کہ کل قیامت کے دن میں اللہ کے سامنے بطور چور کھڑا ہوں، میں تیری بھوک برداشت کرسکتا ہوں، تیری آنکھوں میں آنسو دیکھ سکتا ہوں تیرا رونا بلکنا اور بھوک سے تڑپنا مجھے گوارا ہے لیکن کسی کی امانت میں خیانت ہرگز گوارا نہیں۔سیدنا ابوبکر صدیق ؓ پاس کھڑے یہ سارا ماجرا سن رہے تھے، جذبہ ایمانی اور اخوت اسلامی نے جوش مارا تو سیدھے اس یہودی کے پاس گئے اور کہا کہ تو اپنے کھجوروں کی قیمت بول میں خریدوں گا اور اس سے کھجور کا پورا درخت خرید کر ابودجانہ اور اس کے بچوں کو ہدیہ کر دیا۔
صحابہ کا یہ کردار ہے توپھر کیوں نہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان مقدس ہستیوں کے بارے یہ سند جاری کرے کہ ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے‘‘۔چند دنوں بعد جب یہودی کو اس سارے ماجرے کا علم ہوا تو اس نے اپنے تمام اہل خانہ کو جمع کیا اور رسول اللہ کی خدمت میں پہنچا اور مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ابودجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس بات سے ڈر گئے تھے کہ ان کی اولاد ایک یہودی کے درخت سے کھجور کھانے سے کہیں چور نہ بن جائے اور آج ہمارا کیا حال ہے کہ آج ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا مال ہر ناجائز طریقے سے کھائے جا رہے ہیں آج ہمارا کاروبار جھوٹ کا مرکز بن گیا ہے۔ ہم نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں، اللہ کو ایک مانتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی سرعام یہ کہتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولے کام ہی نہیں چل سکتا ۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS