کابل: (ایجنسی)طالبان کی جانب سے دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد امریکہ افغانستان سے اپنے شہری اور سفارتی عملہ نکال رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر امریکہ کے جانب سے کابل میں امریکی سفارتخانے سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے شہریوں کو لے کر اڑان بھرنے کی تصاویر متعدد بار شیئر کی جا رہی ہیں۔ماضی میں 1975 میں فوٹوگرافر ہلبرٹ وین ایس نے ویتنام جنگ کے خاتمے کے بعد دارالحکومت سیگن کی ایک عمارت کی چھت پر کھڑے ہیلی کاپٹر کی یادگار تصویر کھینچی تھی، جس میں لوگ قطار در قطار عمارت پر لینڈ کیے ہوئے ایک ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے کے منتظر ہیں۔
ریپبلکن اور ڈیموکریٹس پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور امریکی سیاستدان ویتنام میں ناکامی کا موازنہ طالبان کے کابل پر قبضے سے کر رہے ہیں۔
ویتنام جنگ دراصل شمالی ویتنام کی کمیونسٹ حکومت اور جنوبی ویتنام اور اس کے اہم اتحادی امریکہ کے درمیان ایک تنازع تھی۔یہ ایک طویل جنگ تھی، جو تقریباً بیس برس چلی تھی جو امریکہ کو بہت مہنگی پڑی تھی اور امریکی اسے اپنی تاریخ کی بہت’بُری یاد‘کی طرح سمجھتے ہیں۔یہ جملہ’سیگن کا سقوط‘جنوبی ویتنام کے دارالحکومت سیگن پر ویتنام کی کمیونسٹ پیپلز آرمی، جسے’ویت کونگ‘بھی کہا جاتا ہے، کے قبضے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ویت کونگ نے 30 اپریل 1975 کو سیگن پر قبضہ کیا تھا۔
سرد جنگ کے تناظر میں شمالی ویتنام کو سویت یونین اور دیگر کمیونسٹ اتحادیوں کی حمایت حاصل تھی جبکہ جنوبی ویتنام کو ہزاروں امریکی فوجیوں سمیت مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔
امریکہ نے 1973 میں اپنی فوجیں جنوبی ویتنام سے نکال لی تھیں اور دو برس بعد شمالی ویتنام کی فوج کی جانب سے سیگن پر قبضہ کیے جانے کے بعد ملک نے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔بعدازاں اس شہر کا نام مرحوم ویتنامی رہنما ہو چی من کے نام پر رکھ دیا گیا۔ کابل کی طرح سیگن پر بھی امریکی توقعات کے برعکس بہت جلد قبضہ کر لیا گیا تھا۔
اس کے ردعمل میں امریکہ نے سیگن میں اپنا سفارتخانہ خالی کر دیا تھا اور وہاں سے تقریباً سات ہزار امریکی شہریوں، جنوبی ویتنامی شہریوں اور غیر ملکی افراد کا انخلا بذریعہ ہیلی کاپٹرز کیا گیا تھا۔اس انخلا کو’آپریشن فریکوئنٹ ونڈ‘بھی کہا جاتا ہے۔
اپنے اختتام تک ویتنام جنگ امریکہ میں کافی بدنام ہو چکی تھی کیونکہ اس میں نہ صرف اربوں امریکی ڈالرز خرچ ہوئے تھے بلکہ 58 ہزار سے زائد امریکی جانوں کا نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔بعض امریکیوں کے لیے سیگن کا زوال دنیا میں امریکہ کی ساکھ کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔
دہائیوں سے جب سے ویتنام سنڈروم کی اصطلاح سامنے آئی ہے، امریکی ووٹرز بیرون ملک عسکری کارروائی کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ بہت سے امریکی پالیسی سازوں نے سیگن اور کابل کا موازنہ کیا ہے۔ریپبلکن ہاؤس کانفرنس کے سربراہ ایلسی سٹیفانک نے ٹویٹ کیا ’یہ جو بائیڈن کا سیگن ہے۔ عالمی منظر پر ایک تباہ کن ناکامی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔‘
گذشتہ ماہ امریکی افواج کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے اس موازنے کو مسترد کیا تھا۔ جنرل ملی نے رپورٹر کو بتایا تھا کہ’میں اس میں مماثلت نہیں دیکھتا، میں غلط ہو سکتا ہوں، آپ مستقبل کی پشین گوئی نہیں کر سکتے لیکن طالبان شمالی ویتنام کی فوج کی طرح نہیں ہیں۔ یہ ویسی صورتحال نہیں ہے۔‘
سیگن کا زوال امریکی فوجوں کے انخلا کے دو برس بعد ہوا تھا۔ جبکہ کابل میں ابھی بھی امریکی انخلا جاری ہے اور امریکہ افغانستان چھوڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔
تاہم صدر گیرلڈ فورڈ کی سیاسی ناکامی کا سبب سنہ 1975 کی ویتنام جنگ بنی تھی، اگرچہ افغانستان کی جنگ کو امریکہ میں سخت ناپسند کیا جاتا ہے لیکن یہ غیر واضح ہے کہ اس جنگ کے صدر بائیڈن کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
یونیورسٹی آف ٹاٹنگھام میں امریکن سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرسٹوفر فھلپس کا کہنا ہے ’میرے خیال میں یہ بائیڈن کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اسے ایک نقصان کے طور پر دیکھا جائے گا جو ممکنہ طور پر بے عزتی کے طور پر دیکھا جائے گا، کیونکہ بہرحال یہ ان کا فیصلہ تھا غلط یا صحیح۔‘